Abbas Khan in Sabaq-e-Urdu
Wednesday, September 5, 2012
قلمی نام عباس خان
جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب
فرزند اقبال نے عباس چہارم نام دے رکھا ہے۔
تاریخ پیدائش بمطابق ریکارڈ 15 دسمبر 1943ءحقیقتاً اس سے ایک سال زیادہ ہے۔
مقام پیدائش بستی گجہ تحصیل و ضلع بھکر صوبہ پنجاب پاکستان۔
شہروں سے دور عین دریائے سندھ کے کنارے پر واقع ہونے کی وجہ سے اس بستی کو اس کے مکینوں کی زندگی میں خاص اہمیت حاصل ہے۔
تعلیم ایم۔اے (سیاسیات) ،ایل ایل بی۔ دونوں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے۔
پہلا افسانہ پنجاب یونیورسٹی لاءکالج لاہور کے مجلے المیزان کے 1966ءکے شمارے میں آخری شام کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس سال مصنف اس مجلے کے خود مدیر تھے۔
ذریعہ معاش سرکاری ملازمت عدلیہ و احتساب میں ۔اپنے طور پر زمینداری تا حیات۔
تصانیف
ناول
1۔ زخم گواہ ہیں 1984ء ہندوستان میں بھی شائع ہوا، 1988میں۔
2۔ تُو اور تُو 2003ئ
3۔ میں اور امراﺅ جان ادا 2005ئ
افسانوں کے مجموعے:
1۔ دھرتی بنام آکاش 1978ئ
2۔ تنسیخ انسان 1981ئ
3۔ قلم، کرسی اور وردی 1987ئ
4۔ اس عدالت میں 1992ئ
5۔ جسم کا جوہڑ 1999ئ
فسانچوں کے مجموعے
1۔ ریزہ ریزہ کائنات 1992ئ
2۔پَل پَل 1996ئ
کالموں کا مجموعہ
1۔ دن میں چراغ 2002 ئ۔ یہ ان مختصر کالموں کا مجموعہ ہے جو روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوتے رہے۔ اس مجموعے کا ترجمہ ایس اے جے شیرازی نے انگریزی زبان میں Light Within کے عنوان سے کیا ہے۔ قومی اور بین الاقوامی امور پر روزنامہ نوائے وقت میں مضامین لکھنے کا سلسلہ جاری ہے۔
آنے والی کتابیں
1۔ دراز قد بونے (حصہ اول)۔ چند علمی و ادبی شخصیات اور ایک روز نامے کے بارے میں۔
2۔ سلطنتِ دل سے ۔ رام لعل کے خطوط بنام عباس خان۔
3۔ ستاروں کی بستیاں۔ افسانچوں کا مجموعہ۔
انعامات 1۔ پولیس میگ ایوارڈ 2۔ ملتان ایوارڈ یہ انعامات دراصل دوستوں کی عنایات ہیں۔ مصنف کا کہنا ہے کہ آج تک کوئی انعام نہیں ملااور یہ سب سے بڑا انعام ہے جو ملا ہے۔
افراد کنبہ ساجدہ عباس بیوی جو وفات پا چکی ہیں۔ قدسیہ عباس بیٹی اور محمد مرتضیٰ عباس خان بیٹا۔
پتے 1.Abbas Khan, 57. Ghulam Abbas Khan Street , Garden Town, Sher Shah Road, Multan, Punjab, Pakistan
2. Village Gujja , P.O. Sial, Tehsil and District Bhakkar, Punjab, Pakistan.
حاصل عمر حاصل عمرم سہ حرف است و بس
خام بودم، پختہ شدم، سو ختم
(زندگی کا حاصل صرف تین حرف ہیں ۔میں خام تھا، پختہ ہوا اور پھر جل کر راکھ ہو گیا)
سید ظفر معین بلے
عباس خان کا ایک افسانچہ اس طرح ہے
پس منظر
”بڑے بڑے عالی شان بنگلے دیکھ کر آپ شش و پنج میں کیوں پڑ جاتے ہیں؟“
”میں نے اکثر ایسے بنگلے بڑے غور سے اندر اور باہر سے دیکھے ہیں ۔ان کا سامنے کا حصہ بڑا مسحور کن ہوتا ہے۔ ان کی پچھلی طرف لیکن رہن سہن کی ساری ابتری موجود ہوتی ہے۔ کہیں پر بچوں کے میلے کچیلے کپڑے اور ٹوٹے پھوٹے کھلونے پڑے ہیں۔ کہیں گھسا پٹا فرنیچر، کہیں پر سبزی کے چھلکے اور کہیں پر مکھیوں کی یلغار میں کھانے پینے کے برتن۔ گھر کا گٹر بھی قریب ہوتا ہے اور کسی پائپ سے رسنے والا پانی بھی۔ یہیں کوڑے کرکٹ کا ڈرم پایا جاتا ہے۔ کار میں استعمال ہونے والے موبل آئل کے خالی ڈبے، صفائی کرنے والے کپڑے اور جھاڑو ادھرہی ہوتے ہیں۔ انہی عالی شان اور بڑے بڑے بنگلوں کی طرح اکثر زندگیاں ہوتی ہیں۔ سامنے کچھ اور پچھلی طرف کچھ اور۔ کیا ان کا پچھلا حصہ حقیقی ہے یا ان کا اگلا حصہ؟“
اس کے اپنے اس مشاہدے کے مطابق چونکہ ہر انسان کا ایک پیش منظر ہوتا ہے اور ایک پس منظر اس لیے اس کے یہ دونوں منظر موجود ہیں۔اس کے پیشمنظر کے متعلق بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ اس کے پس منظر کے بارے میں کچھ نہیں لکھا گیا۔ یہاں اس کے پس منظر کی جھلک دیکھنے کے لئے پردہ ہٹایا جا رہا ہے۔
بچپن اور لڑکپن اس نے گاﺅں میں پابندیوں سے ہٹ کر گزارا ہے۔ سونے، چلنے، کھیلنے، کھانے، پینے، ہنسنے اور دوستوں کے ہمراہ گلی میں کھانے پکانے میں وہ آزاد تھا۔ اس کے لئے ارد گرد مفلسی کے مظاہر روح فرسا تھے۔ وہ چنانچہ جو کچھ گھر سے پاتا غرض مندوں کے حوالے کر دیتا۔ اس کے اس انداز زندگی کو دیکھ کر لوگ اس کے والد کو کہتے ”خان صاحب! آپ کا بیٹا بہت سادہ لوح ہے۔“ اس کا والد یہ فقرہ سن کر اداس ہو جاتا کیونکہ سیاستدانوں کے الفاظ کی طرح سادہ لوح کا مطلب وہاں کچھ اور لیا جاتا تھا۔ ان لوگوں کے مطابق سادہ لوح کا مطب احمق تھا۔ اس صورت حال کی روشنی میں اس کی تقریباً ساری زندگی کو سمجھا جا سکتا ہے۔ اس نے بدستور خود کو پابندیوں سے آزاد رکھا ہوا ہے۔ اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے کہ وہ احمق ہے اس نے ملازمت کے لئے مقابلے کا امتحان پاس کیا۔ احمق کہنے والوں ہی کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا انسان اور انسان کے ترتیب دئیے گئے اس جہاں پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے ۔اس نے اس بناءپر اپنی تحریروں میں طنز کو اپنا لیا ہے۔
کالج میں پہنچا تو جارج برنارڈ شا، ابو لعلاءمعری، ٹالسٹائی اور جین مت کے بارے میں پڑھ کر گوشت کھانا ترک کر دیا ۔اس کی زندگی سے گوشت کے اخراج نے اس کے دل کو وہ گداز عطا کیا ہے کہ اس کے پاﺅں کے نیچے کوئی چیونٹی بھی آکر مر جائے تو وہ گھنٹوں اداس رہے گا۔
گاﺅں والوں کی مفلسی اور گوشت سے اجتناب نے اسے کمزوروں سے ہمدردی اور ظالموں سے نفرت سکھائی ۔ وہ کارل مارکس کا دیوانہ بن گیا۔ اب اس کو یہ احساس ہوا ہے کہ مساوات اور انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ انسانی خود غرضی ہے۔ فرائیڈ کے الفاظ میں ہر انسان پر دو بادشاہ حکومت کرتے ہیں ۔یہ خوف اور لالچ ہیں ۔کارل مارکس سے انسانی فطرت کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ اشترا کی نظام کو روس میں دھچکا پہنچا۔
اپنی کتاب دراز قد بونے میں اس نے لکھاہے، ”میری روح نے اس گاﺅں میں جہاں میں پیدا ہوا حسن ازل کی جھلک دیکھ لی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مجھے شدت سے وہاں رہنے پر مجبور کرتی رہی اور کرتی رہتی ہے۔“ اپنے گاﺅں سے اب تک محبت اس کی زندگی کا ایک اہم پہلو ہے۔ لوگ آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں، لاہور کراچی یا اسلام آباد رہائش رکھی جائے۔
ان کی استطاعت بڑھتی ہے تو یہ شہر انہیں اچھے نہیں لگتے ۔وہ چاہتے ہیں کہ لندن،پیرس یا نیویارک میں رہائش اختیار کریں۔ یہ ہے کہ بڑے شہروں میں رہائش کے مواقع ہونے کے باوجود گاﺅں سے چمٹا ہوا ہے ۔گاﺅں سے محبت کی تہہ میں حسن ازل کی جھلک کا دیدار یقیناً ہوگا لیکن ایک بڑی وجہ اور بھی ہے۔ اس کو ماضی سے محبت ہے۔ گاﺅں اس کے ماضی کا مرکز و محور ہے۔ وہ عہد رفتہ کی یادوں میں کھویا رہے گا۔ آپ اس کو ایک کمرے میں بند کر دیں ۔وہ اس میں تنہا کئی کئی دن بسر کر لے گا،اس جہان میں کھو کر جو اس کی چاہتوں کا مرکز ہے۔ اس پر گاﺅں کی عنایات ذرا ملاحظہ فرمائیے۔ کھجور کے پتوں کی چٹائی چارپائی پر بچھا کر اس پر سونے کو ترجیح دینا ۔ایسی چٹائی کو زمین پر بچھا کر اس پر لکھنے کے لئے بیٹھنا۔ خوراکوں میں مکھن کو پسند کرنا اور پھلوں میں کھجوروں کو۔ چٹائی پر آلتی پالتی مارے کھانا کھانا انہی عنایات کا حصہ ہے ۔وہ سادہ لوح قطعاً نہیں لیکن سادہ ضرور ہے۔ اس کی کوشش ہوگی کہ اس کے صرف دو جوڑے کپڑوں کے ہوں۔ نہاتے وقت خود ایک کو دھو لیا اور دوسرا نہا کر پہن لیا۔ وہ سفید رنگ کے کپڑوں کا گرویدہ ہے ۔بیوی زندہ تھی تو وہ کئی رنگوں میں اس کے ملبوسات تیار کرائے رکھتی تھی۔ اب یہ فرض بھائی ،بہنیں اور بچے سرانجام دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ان کی کوشش کامیاب نہیں ہوتی ۔کھیتوں کے اطراف میں بنے ہوئے راستوں پر چلنا، مویشیوں کے گلوں میں بندھی ہوئی گھنٹیوں کی آوازوں میں محو ہو جانا اور درختوں کے سایوں کو گھٹتے بڑھتے دیکھنا گاﺅں ہی کے اثرات کا نتیجہ ہیں۔
ان کی استطاعت بڑھتی ہے تو یہ شہر انہیں اچھے نہیں لگتے ۔وہ چاہتے ہیں کہ لندن،پیرس یا نیویارک میں رہائش اختیار کریں۔ یہ ہے کہ بڑے شہروں میں رہائش کے مواقع ہونے کے باوجود گاﺅں سے چمٹا ہوا ہے ۔گاﺅں سے محبت کی تہہ میں حسن ازل کی جھلک کا دیدار یقیناً ہوگا لیکن ایک بڑی وجہ اور بھی ہے۔ اس کو ماضی سے محبت ہے۔ گاﺅں اس کے ماضی کا مرکز و محور ہے۔ وہ عہد رفتہ کی یادوں میں کھویا رہے گا۔ آپ اس کو ایک کمرے میں بند کر دیں ۔وہ اس میں تنہا کئی کئی دن بسر کر لے گا،اس جہان میں کھو کر جو اس کی چاہتوں کا مرکز ہے۔ اس پر گاﺅں کی عنایات ذرا ملاحظہ فرمائیے۔ کھجور کے پتوں کی چٹائی چارپائی پر بچھا کر اس پر سونے کو ترجیح دینا ۔ایسی چٹائی کو زمین پر بچھا کر اس پر لکھنے کے لئے بیٹھنا۔ خوراکوں میں مکھن کو پسند کرنا اور پھلوں میں کھجوروں کو۔ چٹائی پر آلتی پالتی مارے کھانا کھانا انہی عنایات کا حصہ ہے ۔وہ سادہ لوح قطعاً نہیں لیکن سادہ ضرور ہے۔ اس کی کوشش ہوگی کہ اس کے صرف دو جوڑے کپڑوں کے ہوں۔ نہاتے وقت خود ایک کو دھو لیا اور دوسرا نہا کر پہن لیا۔ وہ سفید رنگ کے کپڑوں کا گرویدہ ہے ۔بیوی زندہ تھی تو وہ کئی رنگوں میں اس کے ملبوسات تیار کرائے رکھتی تھی۔ اب یہ فرض بھائی ،بہنیں اور بچے سرانجام دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ان کی کوشش کامیاب نہیں ہوتی ۔کھیتوں کے اطراف میں بنے ہوئے راستوں پر چلنا، مویشیوں کے گلوں میں بندھی ہوئی گھنٹیوں کی آوازوں میں محو ہو جانا اور درختوں کے سایوں کو گھٹتے بڑھتے دیکھنا گاﺅں ہی کے اثرات کا نتیجہ ہیں۔
وہ لوگوں کو ملنے سے بہت گھبراتا ہے۔ ادھر بے تکلف دوستوں سے اس بات پر لڑائی ہے کہ ملاقات کے لئے وقت کیوں نہیں نکالتے ۔اس کی صرف ایک کتاب کی تقریب رونمائی ہوئی۔ اس کے لئے انہی دوستوں نے مجبور کیا۔ لوگوں کے ہجوم میں گھر کر اس کا دل فیل ہوتے ہوتے بچا۔ اس کے بعد اس نے اس طرف کبھی مڑ کر نہیں دیکھا۔
کوئی اس پر احسان کرے تو اظہار تشکر کے طور پر اس کے سامنے بچھ بچھ جائے گا ۔اس کے مطابق اس پر سب سے زیادہ احسانات اللہ تعالیٰ کے ہیں اس لیے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر وقت اس کے سامنے بچھا رہے۔ وہ اس تک اپنے احساسات کے ذریعے پہنچا ہے۔
اس کی ایک عادت نے خاص طور پر اس کو کئی مرتبہ رسوا کیا ہے۔ کسی ذی روح یا بے جان شے کو سامنے پا کر اس کو مسلسل دیکھتا رہے گا ۔مثال کے طور پر اس کے سامنے کوئی عورت ہے ۔یہ اس کو اِن خیالات کے تحت دیکھے گا۔ اس نے خوبصورت نظر آنے کے لئے کیا کیا جتن کئے ہیں ۔بالوں کو رنگا ہے۔ ان کے درمیان میں سے مانگ نکال کر انہیں اس طرح تقسیم کیا ہے کہ آدھے چہرے کے اس طرف اور آدھے اس طرف ایک ایک محراب بناتے ہوئے لٹک رہے ہیں۔ ٹھوڑی کے نیچے پہنچ کر یہ ایک دوسرے کی طرف مائل ہوتے نظر آتے ہیں ۔کانوں کی بالیاں ، کلائیوں کی چوڑیاں اور جوتی سب کپڑوں کے رنگ پر ہیں۔ قمیض کہیں بہت تنگ اور کہیں کھلی ہے ۔ہاتھوں کی کچھ انگلیوں میں سونے کی بنی انگوٹھیاں ہیں۔ ان سب کے باوجود یہ بے چاری خوبصورت نہیں لگتی۔ہو سکتا ہے کسی کو لگتی بھی ہو۔ یہ کیا کم ہے کہ اس قدر تردد کے بعد وہ خود کو بے حد خوبصورت سمجھتی ہے ۔پتہ نہیں شادی شدہ ہے کہ کنواری ہے۔ ہو سکتا ہے بیوہ ہو اور دوسرے خاوند کی تلاش ہو۔ شادی شدہ ہے تو پتہ نہیں خاوند کو پسند آتی ہے کہ نہیں۔ اگر پسند والی بات نہیں اور وہ مر گیا ہے تو اچھاہوا۔ یہ اگر ورزش شروع کر دے تو اس کی شخصیت میں کم از کم اتنی کشش تو پیدا ہو جائے گی جو ٹیلی وژن پر گاتی حبشنوں میں نظر آتی ہے۔ اتنی دیر میں وہ عورت منہ موڑلے گی، اٹھ کر چلی جائے گی یا اس سے لڑ پڑے گی۔
ایک وقت تھا جب یہ بہت خاموش رہتا تھا۔ بڑھتی عمر کے پیش نظر اس نے گھی کی بجائے خوردنی تیل کا استعمال شروع کر دیا ۔اس نے اس کے دماغ میں خشکی پیدا کی۔ اس خشکی کی زیر اثر اس نے بہت بولنا شروع کر دیا۔ اس نے ایک جگہ پڑھا کہ زیادہ بولنے والے کم عقل ہوتے ہیں۔ اب لہذا یہ خاموش رہنے کو ضروری سمجھتا ہے۔
کسی کی اپنے اعزاز میں دعوت قبول کرنا اس کے لئے ناممکن ہے۔ کسی شادی میں شمولیت کا کہا جائے تو ہسپتال میں جا داخل ہوگا۔ کسی کے ہاں مہمان بننا پسند نہیں۔ ہوٹل میں ٹھہرے گا۔ اگر جیب میں پیسے کم ہیں تو کسی سرائے میں وقت گزار لے گا۔ بڑے ہوٹلوں، بڑے درزیوں، بڑے حجاموں اور کاروباری کمپنیوں سے سخت نفرت ہے اس لیے کہ اپنی شہرت کے سہارے یہ دو روپے کی جگہ دو صد روپے لیتی ہیں یا لیتے ہیں۔ڈاکٹروں کو پسند نہیں کرتا۔ اس کی دلی آرزو ہے کہ کوئی ایسی تنظیم پیدا ہو جو ان کے سرمائے پر ہاتھ ڈالے۔
عجیب ہے کہ وہ انسانوں سے دور بھاگتا ہے لیکن انساوں کے سہارے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ جب تک والدین زندہ رہے انہیں چمٹا رہا ایک بچے کی طرح۔ وہ وفات پا گئے تو بھائی بہنوں کی توجہ کا محتاج ہو گیا۔ اب بچے اس کو دلاسہ دیتے ہیں ۔دوست کئی بنے لیکن تعلق اور محبت میں استحکام صرف ان سے رہا جو بچپن میں قریب آئے یاہم جماعت بنے۔ دو فی صد کو چھوڑ کر باقی جو دوست بنے وہ اغراض کے بہت تیز رفتار گھوڑوں پر سوار ہو کر آئے۔ یوں وہ آگے نکل گئے اور یہ پیچھے رہ گیا۔
زندگی کے اس مقام پر وہ کیا محسوس کرتا ہے؟ اس کا موضوع انسان اور یہ جہان رہا ہے۔ اس حوالے سے جواب میں وہ علامہ اقبال کے یہ اشعار پڑھتا ہے
خلقِ خدا کی گھات میں رند ، فقیر ، میر و پیر
تیرے جہان میں وہی گردش صبح و شام ابھی
تیرے امیر مال مست تیرے فقیر حال مست
بندہ ہے کوچہ گرد ابھی خواجہ بلند بام ابھی
عباس خان سے مکالمہ
سید عارف معین بلے
سید عارف معین بلے کا تعلق ادبی گھرانے سے ہے۔ خواجہ خواجگان حضرت معین الدین چشتی سنجری اجمیری کی اولاد میں سے ہیں۔ شعر و ادب کے ساتھ ساتھ صحافت کا ذوق و شوق ورثے میں ملا جسے انہوں نے وسیلہ روزگار بنا لیا۔ اس وقت یہ روزنامہ ایکسپریس رحیم یار خان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر اور ایک نجی ٹی وی چینل میں سینئر پروڈیوسر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ عباس خان کی ناول نگاری، افسانہ نویسی اور کالم نگاری کے سفر کے بہت سے مراحل کے یہ عینی گواہ بھی ہیں۔ انہوں نے عباس خان سے ان کی شخصیت اور فن کے حوالے سے ایک مکالمہ کیا ہے جسے ”سبق اردو“ میں پہلی مرتبہ شائع کیا جا رہا ہے۔
(مدیر دانش الہ آبادی)
سوال: آپ کا اصل نام کیا وہی ہے جس سے آپ ادبی دنیا میں معروف ہیں؟
جواب: اصل نام غلام عباس خان ہے ۔میں نے جب لکھنا شروع کیا تو اس وقت ادبی دنیا میں غلام عباس نام لکھنے والے ایک صاحب موجود تھے۔ ان سے خود کو علیحدہ ثابت کرنے کے لئے میں نے اپنا قلمی نام عباس خان رکھ لیا۔
سوال: خاندانی پس منظر بنائیے؟
جواب: میں بلوچ قبیلے سے تعلق رکھتا ہوں۔ اس کی جو شاخ جسکانی کہلاتی ہے وہ میری ہے۔ جسکانیوں نے پنجاب کے ایک وسیع علاقے پر حکمرانی کی ہے ۔یہ علاقہ موجودہ اضلاع بھکر، لیہ، جھنگ کے مغربی حصے، میانوالی کے جنوبی حصے اور خوشاب کے جنوب مغربی حصے پر مشتمل تھا۔ میانوالی گزٹیٹر کے مطابق جسکانیوں نے یہاں دو سو سال حکومت کی۔ ان کا آخری رئیس فضلؒ حسین خان میرا جد امجد تھا۔
سوال: آپ کے خاندان میں اور لوگ بھی تخلیق کار ہیں یا یہ صرف آپ ہی کا طرہ امتیاز ہے؟
جواب: غلام سکندر خان میرے خاندان کے بڑے شاعر تھے۔ سرائیکی زبان میںشاعری کرتے تھے ۔ان کے کلام کے چھبیس مجموعے منظر عام پر آئے ہیں ۔ان کے کلام کا کچھ حصہ بہاولپور یونیورسٹی کے سرائیکی نصاب میں شامل ہے۔ موجودہ بستی سیال میں رہتے تھے۔ سال وفات صرف معلوم ہو سکا ہے جو کہ 1902ءہے۔
سوال: بچوں کو آپ کا ادبی ورثہ ملا ہے؟ کتنے بچے ہیں؟ کیا کر رہے ہیں؟
جواب: میرے دو بچے ہیں ایک بیٹی ایک بیٹا۔ بیٹی ایم اے انگریزی کا امتحان پاس کر کے گھر کو سنبھالتی ہے۔ انشاءاللہ عنقریب اس کی شادی ہو جائے گی ۔ماں کی وفات ہو جانے کی وجہ سے میری محبت زیادہ پا کر بیٹا لاڈلا ہو گیا ہے۔ وہ ابھی تک بی اے کے امتحانات میں پھنسا ہوا ہے۔ بیٹی نے مطالعے کی حد تک میرا ادبی اثر قبول کیا ہے۔
سوال: آپ کے گھر والے آپ کے ادبی کارناموں کو کس زاویے سے دیکھتے ہیں؟
جواب: ان کے نزدیک ان کی کوئی اہمیت نہیں۔
سوال: پہلا افسانہ لکھنے کا خیال کب اور کیسے آیا؟
جواب: 1965ءمیں اندرونی ابال کے تحت۔
تابشِ حسن بھی تھی تپشِ دنیا بھی مگر
شعلہ جس نے مجھے پُھونکا میرے اندر سے اٹھا
سوال: پہلا افسانہ کہاں چھپا اور کب؟
جواب: پنجاب یویورسٹی لاءکالج لاہور کے رسالے ”المیزان“ میں جو کہ سال 1966ءکے لئے تھا۔
سوال: کیا آپ نے کبھی سوچا تھا کہ ادبی دنیا میں غیر معمولی شہرت آپ کا مقدر بنے گی؟
جواب: سوچا تھا اور اس وقت جب لکھنا شروع کیا۔
سوال: آپ کو کون سا موسم اچھا لگتا ہے؟
جواب: جوانی تک موسم بہار اچھا لگتا رہا، اب سردیوں کے آغاز کا موسم اچھا لگتا ہے۔
سوال: آپ کو کون سا موسم پسند نہیں؟
جواب: جوانی تک سردیوں کا موسم اچھا نہیں لگتا تھا، اب گرمیوں کا موسم اچھا نہیں لگتا۔
سوال: کس بات پر غصہ آتا ہے؟
جواب: انسانی سرکشی پر۔
سوال: غصے کا اظہار کیسے کرتے ہیں؟ پی جاتے ہیں، چلاتے ہیں یا کوئی اور انداز؟
جواب: بات کرتے ہوئے لہجہ سخت ہو جاتا ہے۔
سوال: کون سی بات اچھی لگتی ہے؟
جواب: کسی بھی میدان میں کوئی کارنامہ، مخلوقات پر مہربانی اور سخاوت۔
سوال: کون سی خواہش ہے جو پوری نہیں ہوئی؟
جواب: اس دنیا کو بدلنے کی۔
سوال: کیا آپ خود کو کامیاب انسان سمجھتے ہیں؟ نہیں یا ہاں۔ ہر صورت میں سوال یہ ہے کہ کیوں اور کیسے؟
جواب: بالکل سمجھتا ہوں۔ سعد اللہ شاہ کا ایک شعر سنئے:
کار فرہاد سے یہ کم تو نہیں کہ ہم نے
آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو
میں نے آنکھ سے دل کی طرف پانی موڑنے کا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ اس کارنامے کا ثبوت میری تحریریں ہیں۔ اس مقام پر میں آپ کو ایک واقعہ سنا کر اپنی کامیابی کی ایک اور وجہ بتانا چاہتا ہوں۔ اتفاقاً برٹرینڈ رسل اور فیلڈ مارشل منٹگمری کی ملاقات ایک ہوٹل میں ہو گئی ۔ملتے ہی فیلڈ مارشل منٹگمری نے کہا، رسل! صد افسوس کہ آپ نے اپنی زندگی ایک ڈیسک پر کتابوں میں گنوادی۔ ہمیں دیکھو۔ ہم نے تاریخ اور جغرافیے کے رخ موڑ دئیے۔ رسل نے پوچھا کیوں؟ فیلڈ مارشل منٹگمری نے فوراً جواب دیا: اپنے ملک اور قوم کی تہذیب و ثقافت کو بچانے کے لئے۔ اس پر برٹرینڈ رسل نے مسکرا کہا ۔وہ تہذیب و ثقافت میں ہی تو ہوں۔ فیلڈ مارشل منٹگمری سے آگے بات نہ بن سکی۔ اس نے اس کے بعد لکھنا شروع کر دیا۔
پڑھنے اور لکھنے کی وجہ سے اپنے ملک و قوم کی تہذیب و ثقافت تک میں خود کو لے گیا ہوں۔
سوال: آپ کی زندگی کا سب سے خوش نصیب لمحہ کون سا تھا؟
جواب: زمانہ طالب علم ختم ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے مقابلے کا امتحان پاس کر کے جب میں جج بنا۔
سوال: کس بات پر بے بسی محسوس کرتے ہیں؟
جواب: انسانی فطرت کے سامنے۔
سوال: سب سے بڑا دکھ؟
جواب: اقرباءکے وفات پا جانے کا۔
سوال: آپ کی ذات کی کوئی ایسی کمزوری جسے آپ دور کرنا چاہتے ہیں؟
جواب: مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنا مقرب خاص نہیں بنایا۔
سوال: کوئی ایسی خوبی جو معاشرے کی نظر میں خامی بن کر رہ گئی ہو؟
جواب: یہ سوال معاشرے اور میرے درمیان کبھی پیدا نہیں ہوا۔
سوال: آپ کے افسانوں کے عنوانات کون تجویز کرتا ہے؟ کیا آپ خود یا کوئی قریبی دوست؟
جواب: میرے کچھ افسانچوں کے عنوانات آپ نے تجویز کیے۔ میرے ناولوں، افسانوں اور باقی افسانچوں کے نام خود میرے تجویز کردہ ہیں۔
سوال: کون سا رنگ آپ کو اچھا لگتا ہے؟
جواب: سفید۔
سوال: کس رویے سے آپ کو نفرت ہے؟
جواب: متکبرانہ۔
سوال: محبت کے حوالے سے آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب: یہ ایک طاقت ہے جو نسل انسانی کو آگے بڑھانے کے لئے ہے۔
سوال: محبت میں آپ توقعات کو کیا اہمیت دیتے ہیں؟
جواب: یہ سارا کھیل ہی توقعات کا ہے۔
سوال: زندگی میں کوئی پچھتاوا؟
جواب: جس ڈاکٹر کی غفلت اور بلڈ بنک کے اہلکار کی بددیانتی کی وجہ سے میری والدہ کی وفات ہوئی میں نے ان کے بازو کیوں نہ توڑے۔
سوال: نئی زندگی ملے تو کیا آپ افسانہ نگار اور جج بننا پسند کریں گے؟
جواب: پسند کروں گا۔
سوال: کتاب بینی، کتاب نویسی اور تخلیق کاری کے سوا آپ کے کیا مشاغل ہیں؟
جواب: اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنا، کاشتکاری، چند بے حد بے تکلف دوستوں کی محفل میں بیٹھنا، درختوں اور کھیتوں کے درمیان سے گزرنے والے راستوں پر چلتے رہنا، راتوں کی خاموشی اور اسرار کو محسوس کرنا اور موسیقی سننا۔
سوال: زندگی میں کس بات کی کمی آپ اکثر محسوس کرتے ہیں؟
جواب: اس قوت کی جو اپنی کوتاہیوں پر قابو پانے میں مدد دیتی ہے۔
سوال: ٹی وی کے کس نوعیت کے پروگرام پسند ہیں؟
جواب: اعلیٰ قسم کے طنز و مزاح پر مبنی ڈرامے۔
سوال: کون سے پروگرام کا آپ کو انتظار رہتا ہے؟
جواب: کسی پروگرام کا انتظار نہیں رہتا۔
سوال: کیا آج کے عہد میں ٹی وی کے بغیروقت گزار اجا سکتا ہے؟
جواب: بالکل گزارا جا سکتا ہے۔
سوال: ستاروں کے بارے میں آپ کا خیال کیا ہے؟ کیا ستاروں کی چال ہمارے مستقبل اور حال پر اثر انداز ہوتی ہے؟
جواب: احمقوں، ظالموں اور گنہگاروں کو خوش حال دیکھ کر مجھے ستاروں کی طاقت اور اثرات کا یقین ہے۔
سوال: اخبارات میں ”آج کا دن کیسا گزرے گا“ کیا آپ بھی باقاعدگی سے پڑھتے ہیں؟
جواب: اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسباں عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
اس جہان غم ناک میں جس کی ترجمانی اخبارات اس کو اور زیادہ غم ناک بنا کر کرتے ہیں اگر ”آج کا دن کیسا گزرے گا“ میں امید کی کرن کی جستجو کر لی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ چنانچہ اسے پڑھتا رہتا ہوں۔
سوال: کیا ان میں لکھی باتوں پر آپ کو یقین ہے؟
جواب: یہ لکھنے والے پر منحصر ہے۔
سوال: آپ کی کتنی کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور یہ کس نوعیت کی ہیں؟ تفصیل کے ساتھ بتائیے۔
جواب: تفصیل معہ نوعیت پیش خدمت ہے:
ناول:
1۔ زخم گواہ ہیں
2۔ توُ اور تُو
3۔ میں اور امراﺅ جان ادا
افسانوں کے مجموعے:
1۔ دھرتی بنام آکاش
2۔ تنسیخ انسان
3۔ قلم کرسی اور وردی
4۔ اس عدالت میں
5۔ جسم کا جوہڑ
افسانچوں کے مجموعے:
1۔ ریزہ ریزہ کائنات
2۔ پل پل
اخباری کالموں کے مجموعے:
1۔ دن میں چراغ
2۔ اس کا انگریزی میں ترجمہ Light Within کے عنوان سے ہوا ہے۔
سوال: کتنی کتابیں زیر طبع ہیں؟ یہ کس نوعیت کی ہیں؟
جواب: ناول ”میں اور امراﺅ جان ادا“ کا اگلا ایڈیشن آنے والا ہے۔ درج ذیل کتابیں طباعت کے لئے تقریباً تیار ہیں:
1۔ دراز قد بونے کچھ ادیبوں و دانشوروں اور ایک اخبار کے بارے میں تاثرات۔
2۔ سلطنت دل سے یہ رام لعل کے میرے نام لکھے گئے خطوط کا مجموعہ ہے۔
3۔ ستاروں کی بستیاں افسانچوں کا مجموعہ سوال:
سوال: کیا ناقدین آپ کے فن سے انصاف کر سکے ہیں؟
جواب: نہیں۔
سوال: لوگ یا تو دوست نوازی کی وجہ سے کسی کے بارے میں لکھتے ہیں یا کوئی عداوت انہیں تنقیص پر مجبور کرتی ہے ۔اس پس منظر میں بتائیے کہ کیا غیر جانبدارانہ تنقید کسی تخلیق کار کی زندگی میں ممکن ہے؟
جواب: مشکل ہے ناممکن نہیں۔
سوال: کیا آپ نے کبھی شاعری کی ہے۔
جواب: زمانہ طالب علمی میں۔
سوال: آپ کے کالم بھی بہت پسند کیے جاتے رہے ہیں ۔کیا کالم نگاری کا سلسلہ اب بھی جاری ہے؟
جواب: جاری نہیں ہے۔ آج کل مضامین لکھتا ہوں۔
سوال: کیا کالم نگاری کو بھی ادب کی صنف کا درجہ حاصل ہو چکا ہے؟
جواب: کسی حد تک ادبی کالم نگاری کو۔
سوال: جج کا کام بھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا ہوتا ہے۔ آپ یہ بتائیے کہ ادبی دنیا میں تنقید کا راستہ اپنا کرآپ یہ ”ناخوشگوار فریضہ“ انجام نہیں دے سکتے؟
جواب: دے سکتا ہوں۔
سوال: آپ نقاد بن کر آگے آئے تو کیا دوست نوازی آپ کو سچ لکھنے دے گی؟
جواب: کسی دوست کی سفارش نہ مان کر ملزم کو سزائے موت دینے سے تنقید لکھنا کوئی زیادہ مشکل کام تو نہیں۔
سوال: کتابوں کی رونمائی۔۔۔ کسی تخلیق کار کے ساتھ ایک شام۔۔۔۔ جیتے جی پذیرائی اور فلیپ نگاری کے حوالے سے آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب: تخلیق کو متعارف کرانے کے لئے ان طریقوں کو اپنائے جانے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن ان کے ذریعے جو کچھ کہا جاتا ہے یا لکھا جاتا ہے محض مدح سرائی اور دوست نوازی کے ضمن میں آتا ہے۔
سوال: دیباچے، تقریظ، پیش لفظ، حرف آغاز، یہ سب کیا ہیں؟ کس لیے؟ کیا یہ کسی کی آنکھ سے کسی تخلیق کار اور اس کی تخلیق کو دیکھنے کے مترادف نہیں؟
جواب: آپ نے درست کہا ہے۔
سوال: اردو میں ناول نگاری کا مستقبل کیا ہے؟
جواب: روشن ہے۔
سوال: دنیا بھر میں وقت کی کمی کا مسئلہ ہے لیکن اس کے باوجود تمام بڑی زبانوں میں ناول لکھے جا رہے ہیں اور پڑھے جا رہے ہیں پھر اردو میں ناول نگاری کا فن دم توڑتا ہوا کیوں محسوس ہو رہا ہے؟
جواب: بالکل دم نہیں توڑ رہا۔
سوال: کیا آپ اپنے جواب کی تائید میں کوئی مثال پیش کر سکتے ہیں؟
جواب: ادب کی ایک ایسی تعریف جس پر سارا عالم متفق ہو میری نظر سے نہیں گزری۔ جو جس کے جی میں آتا ہے ہانک دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو ناول کی تاریخ کسی کے نزدیک دو ناولوں پر مشتمل ہے اور کسی کے نزدیک محض چار پر۔ نسیم حجازی، ایم اسلم، اے حمید، دت بھارتی اور اے آر خاتون نے کئی کئی ناول لکھے لیکن آپ کو ان کا ذکر نہیں ملے گا۔ ان جیسے اور کئی لکھنے والے ہیں لیکن توجہ سے محروم ہیں۔ کیوں؟ ذاتی پسند یا ناپسند، کم علمی، یا کسی بڑے نام نہاد تنقید نگار کی رائے کی پیروی۔ آپ صرف مقبول اکیڈمی لاہور کی طرف سے چھپنے والی کتابوں کی فہرست اٹھا کر دیکھ لیں۔ آپ کو ہر سال شائع ہونے والے درجنوں ناولوں کے نام ملیں گے۔
سوال: افسانے، کہانی، حکایت، داستان، روداد اور کتھا میں آپ کیا فرق سمجھتے ہیں؟
جواب: کسی جاندار یا غیر جاندار پر گزرے وقت کاتذکرہ یا کسی واقعے کا بیان کہانی کہلاتا ہے ۔یوں کہانی، حکایت، داستان، روداد اور کتھا ایک ہی سطح پر ہیں۔ ان میں اگر کوئی فرق ہے تو صرف اتنا ہے کہ داستان طوالت میں ہوتی ہے، حکایت سبق آموزی کے لئے اور روداد اجتماعات و سفروں کے حالات کے اظہار تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ کہانی لکھنے والا جب خود آگہی اور جہان شناسی کے مقام پر پہنچ جاتا ہے تو جو کہانی وہ لکھتا ہے وہ افسانہ کہلاتی ہے۔
سوال: پاکستان میں آزادی اظہار رائے پر پابندی وقتاً فوقتاً مارشل لاءکے نفاذ کی وجہ سے رہی۔ اس بناءپر علامت نگاری پروان چڑھی ۔اگر یہ خیال درست ہے تو بھارت میں علامت نگاری کو آپ کیا نام دیں گے؟
جواب: مارشل لاءطاقت کا ایک روپ ہے ۔طاقت کے اور بھی کئی روپ ہیں جیسا کہ بادشاہت، ماضی یا تاریخ، جغرافیہ، معاشرہ اور انسانی خواہشات۔ یوں دیکھا جائے تو ہر انسان کا سامنا مارشل لاءجیسے حالات سے رہا ہے اور ہے۔ ان کے پیش نظر ہر جگہ علامت نگاری اور اشاروں سے کام لیا گیا ہے اور لیا جا رہا ہے۔ بھارت میں علامت نگاری کا یہی جواز ہے۔ دوسرے وہاں فیشن کے طور پر بھی علامت نگاری کو اپنایا گیا۔
سوال: مرتضیٰ برلاس افسروں میں شاعر ہیں شاعروں میں افسر ہیں کا شکوہ کرتے رہے ۔آپ بتائیے کہ کیا آپ نے بھی ادبی دنیا میں خود کو جج اور عدالت میں خود کو افسانہ نگاریا تخلیق کار پایا؟
جواب: مرتضیٰ برلاس کا مطلب یہ تھا کہ شاعر انہیں افسر سمجھ کر اہمیت نہیں دیتے اور افسر شاعر جان کر ان کا درجہ کم سمجھتے ہیں ۔ان کی بات درست ہے ۔میرے ساتھ بھی ایسا ہوتا رہا اور ہو رہا ہے۔ برلاس صاحب، ایسے کئی دوسرے اور میں استحصالی قوتوں کے کاواں میں شامل سمجھے جاتے ہیں۔ وہی طبقاتی نفرت درمیان میں آجاتی ہے۔ ادب محروم لوگوں کی میراث سمجھا جاتا ہے۔ تنقید نگاری اور ادبی تاریخ نویسی کا منصب اساتذہ نے سنبھال لیا ہے۔ ان کو اختیارات سے اپنی محرومی کھٹکتی ہے ۔یہ کہتے ہیں کہ یہ بڑے بڑے منصبوں والے ہیں لیکن معاشرے میں اختیار ایک ٹریفک کے سپاہی جتنا بھی نہیں رکھتے۔ یہ بھی عملاً ادیبوں والی صف میں کھڑے ہیں۔ محرومی ویسے بھی مقبولیت کے لئے لازمی ہے۔ غالب مفلسی اور بے چارگی کا شکار رہا لہذا لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کر گیا۔ فیض احمد فیض کو دیکھ لیں۔ وہ پنڈی سازش کیس میں قید ہوا تو لوگوں کی ہمدردیاں اس کے ساتھ ہو گئیں۔ ساحر لدھیانوی کو سامنے رکھئے ۔اب ان کے مقابلے میں غلام عباس خان المعروف عباس خان ہے۔ اس کے پاس سرکاری کار ہے، باوردی سرکاری ڈرائیور ہے، سرکاری گھر ہے اور اختیارات ہیں۔ حسد اور نفرت کرنے کے لئے یہ کافی ہیں حالانکہ اندر سے وہ خستہ حال ہے ۔تنخواہ تھوڑی ہے لہذا بیوی لڑ جھگڑ کے نوکری شروع کر دیتی ہے تاکہ عزت سے زندگی بسر کر سکے ۔کسی قریبی دوست سے اس کے بیٹے کی پیدائش پر مٹھائی کی پلیٹ نہیں لے سکتا کہ رشوت کا الزام نہ لگ جائے گا۔سفارش نہیں مانتا تو قتل کی دھمکیاں ملتی ہیں۔ معاشرتی قیدی ہے کہ کہیں آسانی سے آجا نہیں سکتا اور کام اتنا زیاد ہے کہ فشار خون، اختلاج قلب اور اندھے پن جیسے امراض حملہ آور ہونے کے لئے تیار کھڑے ہیں ۔اس کو یہ ملازمت چھوڑ دینی چاہیے اور معلمی اختیار کر لینی چاہیے۔ دن میں دو پیریڈ پڑھائے، آدھا سال چھٹیاں اور نوخیز لڑکے اور لڑکیوں کا شاگردوں کی صورت میں ساتھ۔ بس موجودہ ملازمت سے اس لیے چمٹا ہے کہ عزت و وقار کا تصور اختیارات کی کثرت و طاقت سے وابستہ ہے۔
اس حقیقت کا ایک دوسرا پہلو ہے اور یہ پہلو دونوں کا ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے کا ہے۔ میں نے اپنی افسانہ و ناول نگاری کو عدالتی کام پر اثر انداز نہ ہونے دیا۔ عدالت میں ہمیشہ دو اور دو چار کہنے کی کوشش کی۔ البتہ ادیب کی حیثیت سے حساس ہونے کی بناءپر مقدمات میں مبتلا لوگوں کے دکھوں کو محسوس کر کے میں غم زدہ رہتا تھا اور رہتا ہوں۔ عدالت سے ادب کے لئے میں نے کچھ زیادہ حاصل کیا ہے۔ یہ کیا کم ہےکہ انسان کے باطن کو میں نے عریاں حالت میں دیکھا۔
سوال: ہجرت، مارشل لائ۔ جمہوریت کی بحالی ۔کیا افسانوی ادب کے موڑ ہیں؟
جواب: مارشل لاءاور جمہوریت کی بحالی افسانوی ادب کے موڑ نہیں بن سکے ۔دونوں سانحے ایک سکے کے دو رخ ہیں ۔ہجرت نے افسانوی ادب کو بہت متاثر کیا۔
سوال: کیا سانحات، پریشانیاں، دکھ اور مصائب خوبصورت تخلیق کے لئے ضروری ہیں؟
جواب: میں آپ کو آسکر وائلڈ کا ایک فقرہ سناتا ہوں، ”اس دنیا کی لذتیں خوبصورت جسم رکھنے والوں کے لئے ہیں جبکہ غم خوبصورت روح رکھنے والوں کے لئے ہوتے ہیں۔“ دنیا کے تقریباً ہر ادب میں ان کو اہمیت دی گئی ہے۔ آسکر وائلڈ کا ہم زباں شیکسپیئر کہتا ہے کہ ”غم مدرک حقائق ہے۔“ اردو میں میر بڑا شاعر کہلایا تو ایسے اشعار کی بناءپر۔
شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
فارسی شاعر حافظ شیرازی کا یہ شعر سنیے،
شب تاریخ و بیم موج گردابے چنیں حائل
کجا دانند حال ما سبکسارانِ ساحل ہا
نیو یارک میں ملکہ فرح دیبا سے ایک صحافی نے جا کر پوچھا کہ اب وقت کیسے گزرتا ہے ۔اس نے جواباً کہا کہ شاہ کی یادوں، ایران سے تعلق اور فارسی شاعری نے سہارا دے رکھا ہے ۔فارسی شاعری پڑھ کر احساس ہوا کہ لوگوں پر اس سے بھی زیادہ غم گزرے ہیں ۔اس انکشاف سے ڈھارس بندھی۔
سوال: فارسی شعر کا کیا مطلب ہے؟
جواب: دریا کی لپیٹ میں ہم ہیں ۔سیاہ رات ہے۔ لہروں کا خوف ہے اور گرداب کا سامنا ہے ۔ناز و انداز سے ساحلوں پر چلنے والے ہماری حالت کا اندازہ کیسے کر سکتے ہیں۔
سوال: اگر ایسا ہے تو پھر اس حوالے سے ہمارا ادیب خود کفیل ہے۔ کیا وہ واقعی بہترین اور خوبصورت ادب تخلیق کر رہا ہے؟
جواب: جی ہاں۔
سوال: غالب ایک شعر کے عوض مومن کو اپنا پورا دیوان دینے پر آمادہ ہو گئے تھے۔ کبھی آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوا کہ کوئی افسانہ پڑھ کر آپ نے یہ سوچا ہو کہ کاش میں نے یہ تخلیق کیا ہوتا؟
جواب: جی ہاں۔
سوال: کوئی ایسا افسانہ جو آپ کے کسی مجموعے میں شامل ہو اور آپ نے یہ سوچا ہو کہ کاش میں نے یہ شامل نہ کیا ہوتا؟
جواب: ایسا کوئی افسانہ نہیں ہے۔
سوال: آپ کا کام یقیناً اہم ہے اور ناقدین ادب اس کے معترف ہی نہیں مداح بھی ہیں پھر بھی یہ بتائیے کہ کوئی ایسی تخلیق جس کے بعد آپ سوچتے ہوں کہ میں اس سے بہتر کچھ نہیں دے سکتا؟
جواب: یہ تو میرے وجدان اور مجھ پر آمد سے متعلقہ سوال ہے۔ مجھے کسی بے مثال فن پارے کا وجدان ہو جائے یا اس کی آمد تو یہ ممکن ہے۔ اب وجدان اور آمد پر میرا بس نہیں چلتا ۔آورد کے تحت میں اس کام سے جو میں نے کیا ہے بہتر تخلیق دے سکتا ہوں لیکن اس کے لئے بہت وقت اور محنت چاہیے۔
سوال: کوئی ایسی تخلیق جس پر آپ کو کسی منفرد یا انوکھے انداز میں داد ملی ہو؟
جواب: داد تو ملی لیکن انوکھے انداز میں کوئی داد نہیں ملی۔
سوال: کوئی خوبصورت کام جو منظر عام پر آنے کے باوجود ارباب علم و فن کی نظر میں دیر سے آیا ہو۔ پہلے کافی دیر سکوت طاری رہا ہو اور پھر آپ کو کھل کر داد ملی ہو؟
جواب: ایسا کوئی کام نہیں کیا۔ بس ساتھ ساتھ داد ملتی رہی۔
سوال: کوئی ایسا دوست جس نے آپ کی ہر کتاب کی اشاعت پر اپنے تاثرات سے آگاہ کیا ہو؟
جواب: ایسا کوئی دوست نہیں۔
سوال: کوئی ایسا ادبی حریف جو آپ کی نئی کتاب کا منتظر رہتا ہو تاکہ اپنے دل کی بھڑاس نکال سکے؟
جواب: کوئی نہیں۔
سوال: کوئی ایسا افسانہ نگار جو آپ کے بہت قریب ہو؟
جواب: لکھنﺅ سے رام لعل تھے ۔وہ وفات پا چکے ہیں۔
سوال: کوئی ایسا ادیب جس سے آپ کا قلمی رابطہ ہو اور ملاقات کبھی نہ ہوئی ہو؟
جواب: خورشید ملک مرحوم شاہجہان آباد سے۔ اکثر یہ غم دل کو کھائے رکھتا ہے کہ میں ان کے لئے کچھ نہ کر سکا۔
سوال: کوئی ایسا افسانہ نگار جس سے آپ ملنے کے خواہش مند ہوں؟
جواب: کوئی نہیں۔
سوال: کوئی ایسا انسان جو آپ کی تخلیقات کی بنیاد پر آپ کا مداح ہو۔ پاسپورٹ اور ویزے کی کارروائیوں کی عدم تکمیل یا جھنجھٹ کے باعث ملاقات کی کوئی صورت پیدا نہ ہو سکی ہو؟
جواب: کوئی نہیں۔
سوال: ادبی دنیا میں ہمیشہ گروہ بندیاں رہی ہیں ۔آپ ان کو کس زاویے سے دیکھتے ہیں؟
جواب: میرے ایک رفیق کار نے انجمن خدام زوجگان بنائی تھی۔ اس انجمن کے نام کی طرز پر میں انہیں انجمن ہائے مداحین دوستاں کہتا ہوں۔
سوال: ادبی جرائد اور اخبارات کے بارے میں آپ کیا کہنا پسند کریں گے؟ کیا یہ مخصوص ادبی گروہوں کی پزیرائی کے لئے مخصوص ہیں یا حقیقی معنوں میں ادب کی خدمت میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں؟
جواب: کچھ ادبی جرائد اور اخبارات حقیقی معنوں میں ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں روزنامہ نوائے وقت پاکستان ، ماہنامہ فن پارہ، ماہنامہ رابطہ، ماہنامہ ماہ نو، ماہنامہ مسکراہٹ و سیپ جو کہ روزنامہ نوائے وقت کی طرح پاکستان ہی سے نکلتے ہیں کے نام جلی حروف میں لکھے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح ہندوستان کے رسائل شاعر، ادبی شاخیں ا
اور سبق اردو اور کشمیر سے انٹرنیشنل صدا ہیں ۔باقی کے بارے میں میں ایسا دعویٰ نہیں کرتا۔
سوال: بڑے ادبی مراکز سے رشتہ قائم ہوئے بغیر کیا کوئی تخلیق کار اپنی پہچان کرا سکتا ہے؟
جواب: کرا سکتا ہے۔
سوال: بڑے شہروں کی نسبت کیا مضافات میں زیادہ جوہر قابل نہیں؟ آپ اپنا مشاہدہ بتائیے؟
جواب: مضافات میں زیادہ جوہر قابل ہے۔
سوال: نئے افسانہ نگاروں میں آپ نے کیا نیا پن محسوس کیا؟
جواب: نئے زمانے کا ساتھ دینا۔ پاکستان کو چھوڑ کر باقی ملکوں کے لکھنے والوں میں کچھ فحش نگاری آگئی ہے۔
سوال: آپ کی تخلیق کا موسم کب آتا ہے؟
جواب: جب دل مجروح ہوتا ہے۔
سوال: جب چاہتے ہیں لکھ لیتے ہیں یا اندر سے یہ کونپل پھوٹتی ہے؟
جواب: جب اندر سے یہ کونپل پھوٹتی ہے۔
سوال: ادبی محفلیں مشاعروں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں ۔آپ اس بات سے کس حد تک اتفاق کریں گے؟
جواب: مشاعروں کے علاوہ بھی ادبی محفلیں جمتی ہیں۔ رسمی طور پر اور غیر رسمی طور پر۔ پاکستان و ہندوستان میں کئی ادبی حلقے ہیں جو اپنے اجلاس کرتے رہتے ہیں۔
سوال: نئے افسانہ نگاروں کو اپنی پہچان کرانے کے لئے کیا کرنا چاہیے؟
جواب: مطالعہ، گہرا مشاہدہ اور نصب العین ضروری ہیں۔ مطالعے میں فلسفہ، تاریخ اور ادب ضروری ہیں۔ مشاہدے میں انسان مرکز و محور ہو جبکہ نصب العین کی بلندی مقرر نہیں کی جا سکتی۔ یہ نصب العین رکھنے والے پر منحصر ہے کہ اس کو جتنا اونچا لے جائے۔
سوال: اردو ادب میں تنقید کے معیار سے آپ مطمئن ہیں؟
جواب: نہیں۔
سوال: آپ نے اردو ادب کو بہت کچھ دیا ۔یہ فرمائیے کہ ادب نے آپ کو کیا دیا؟
جواب: تسکین قلب۔
سوال: رمزیت یا ایمائیت کس تخلیق کا حسن ہوتی ہے آپ یہ بتائیے کہ یہ ابلاغ کی راہ میں کبھی کبھار حائل تو نہیں ہو جاتی؟
جواب:ہو جاتی ہے۔
سوال: کسی ادبی گروہ سے وابستگی اختیار کئے بغیر کوئی ادیب شہرت حاصل کر سکتا ہے۔
جواب: کر سکتا ہے۔
سوال: میرے والد مرحوم سید فخر الدین بلے کا شعر ہے:
دیدہ وروں کے شہر میں ہر ایک پستہ قد
پنجوں کے بل کھڑا ہے کہ اونچا دکھائی دے
آپ دراز قد بونے کے نام سے کتاب لکھ رہے ہیں ۔اس میں کیا ہے؟
جواب: کچھ علمی و ادبی شخصیات اور ایک اخبار جو دراز قد ہیں لیکن میں نے انہیں پستہ قد پایا۔
سوال: کیا کوئی نیا ناول تخلیق کر رہے ہیں؟
جواب: ابھی نہیں۔
سوال: ایک افسانہ آپ کتنی نشستوں میں مکمل کرتے ہیں؟
جواب: دو تین میں۔
سوال: کیا آپ اب بھی دن میں چراغ روشن کر رہے ہیں؟
جواب: آپ کا اشارہ میرے کالم دن میں چراغ کی طرف ہے۔ آج کل یہ نہیں لکھ رہا۔
سوال: سید اصغر جاوید شیرازی نے اس کا خوبصورت ترجمہ انگریزی میں کیا ہے۔ میرا مطلب ہے آپ کے کالموں کے مجموعے کا۔ کیا دوسری زبان میں ترجمانی ممکن ہے؟
جواب: ممکن ہے ۔کئی مقامات پر ترجمہ اصل کو مات دے گیا۔
سوال: آپ کے یہ کالم پڑھ کر ان کے طلسم سے آدمی باہر نہیں آپاتا۔ کیا یہ انداز بیاں شعوری کوشش کا نتیجہ ہے یا اندر کی آواز؟
جواب: شعوری کوشش۔
سوال: کیا آپ نے اپنی ادبی کاوشوں کا تنقیدی جائزہ لیا ہے؟ جواب ہاں میں ہے تو کس نتیجے پر پہنچے ہیں؟
جواب: لیا ہے۔ اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میں نے ٹھیک لکھا ہے۔
سوال: افسانے میں تجریدیت کے حوالے سے آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب: مجھے تجریدیت سے چڑ ہے۔ ایک طرح سے افسانے میں کہانی واپس لانے کا آغاز میں نے کیا۔
سوال: الیکٹرانک میڈیا کے فروغ پانے اور ہندی ٹی وی چینلز کی بہار آنے سے کیا اردو کی شکل تبدیل نہیں ہو رہی؟
جواب: ہو رہی ہے۔
سوال: کبھی اردو پر فارسی و عربی کا غلبہ تھا۔ اب انگریزی اور علاقائی لفظوں کی اس میں بھرمار ہے۔ آپ اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جواب: بلا ضرورت ۔جس قدر یہ بھرمار ہے یہ اردو کے قتل کے مترادف ہے۔
سوال: آپ کن کلاسیکل ناول و افسانہ نگاروں کو اردو ادب کا مان سمجھتے ہیں؟
جواب: میرے نزدیک کلاسیکی ادب سے مراد وہ تخلیقات ہیں جو ہر زمانے کے لئے ہوں۔ اس تعریف کے مطابق میں ڈپٹی نذیر احمد، مرزا محمد ہادی رسوا، عبدالحلیم شرر، پریم چند، کرشن چندر، بیدی، منٹو اور قدرت اللہ شہاب کی تحریروں کو اردو ادب کا مان سمجھتا ہوں۔
سوال: آپ کا ناول زخم گواہ ہیں ہمارے عدالتی نظام کا پوسٹ مارٹم ہے ۔اس کے بارے وکلاءاور جج صاحبان کا کیا تاثر رہا؟
جواب: چونکہ یہ حقائق پر مبنی ہے لہذا اس کے خلاف آواز نہ اٹھائی گئی۔
سوال: یہ ناول تخلیق کرنے کا خیال کیسے آیا؟
جواب: میری ملازمت کا آغاز تھا ۔میں ضلع ملتان کی تحصیل لودھراں میں تعینات تھا ۔لودھراں اب خود ضلع بن چکا ہے۔ میری عدالت میں ایک عورت کا مقدمہ چلتا تھا۔ وہ سفید روایتی برقعے میں آکر عدالت کی پچھلی دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھ جاتی ۔میلے اور بوسیدہ برقعے سے اس کی حالت زار کا اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا ۔گرمیوں کے دنوں میں دیوار کے ناکافی سائے میں اسے بیٹھے دیکھ کر میں بے حد غم زدہ ہوتا ۔میں پھر دیکھتا کہ عدالت کے اہلکاروں اور دوسرے لوگوں کے پاس اس کے سامنے مشروبات اور کھانے کی دوسری اشیاءجا رہی ہیں ۔وہ اس قابل نہیں کہ کچھ خرید سکے۔ میں اس کے لئے کچھ نہیں کر سکتا تھا کیونکہ مجھ پر اس کی طرفداری کا الزام لگ جانا تھا۔ اس پر اس کے مخالف مقدمے کو تبدیل کرا کے کسی اور جگہ لے جاتے۔ یوں وہ مزید دھکے کھاتی۔ اس کا اپنا وکیل حسب دستور وکلاء،وصولی فیس کے بعد اس کی بات نہیں پوچھتا تھا ۔اس وجہ سے دیگر سینکڑوں مقدموں کی طرح اس کا مقدمہ لٹک گیا تھا۔ شروع کے چھ ماہ کام کرنے کے بعد مجھے پتہ چل گیا تھا کہ گندگی کے ایک ڈھیر پر میں کرسی ڈال کر بیٹھتا ہوں۔ جب اس عورت کو دیکھا تو مجھے نظام عدالت اور اس کے کرداروں سے سخت نفرت ہو گئی۔ اس پس منظر میں یہ ناول لکھا۔
سوال: اس ناول میں بہت سے ایسے کردار ہیں جو معاشرے کے زندہ کردار قرار دئیے جا سکتے ہیں ۔کیا کسی ایسے حقیقی کردار نے آپ سے گلہ کیا کہ آپ نے اس کی تصویر کشی کر کے اس کی کردار کشی کی ہے؟
جواب: دو وکلاءصاحبان نے خاص طور پر گلہ کیا۔ ایک نے خط کے ذریعے مجھ پر تنقید کی ۔خط میں اس نے اپنا پتہ نہ لکھا ۔دوسرے نے مجھ سے ہاتھ ملا کر کہا کہ زخم گواہ ہیں حصہ دوم کب آرہا ہے۔ اس کا مطلب تھا کہ جو کچھ جج کرتے ہیں اس کا ذکر بھی ہونا چاہیے۔میں نے کہا حصہ دوم کے لئے مواد نہیں ہے۔ اس پر وہ مسکرا کر چل دیا۔ وہ مواد اب مجھے مل گیا ہے۔ یہ میں اپنی کتاب دراز قد بونے حصہ دوم میں پیش کروں گا۔
سوال: اردو ادب میں آپ کی اس کاوش سے ناول نگاری کو نئی زندگی ملی ہے یہ ایک عام تاثر ہے اور بعض ناقدین نے اس کی نشاندہی بھی کی ہے۔ اس بارے میں آپ کا تاثر کیا ہے؟
جواب: خوشی اور احساس کامیابی کا۔
سوال: کتابیں مہنگی ہوتی جا رہی ہیں ۔ادیب خوش حال نہیں، خرید کر کتاب پڑھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے، اس حوالے سے کتاب کا مستقبل آپ کیا دیکھ رہے ہیں؟
جواب: میں پر امید ہوں۔ کپڑا مہنگا ہونے کے باوجود لباس تو ہم پہنتے ہیں۔
سوال: وہ ادیب جو آپ کی طرح شہرت یافتہ نہیں اپنی تمام جمع پونجی اپنی کتاب کی اشاعت پر خرچ کر دیتے ہیں ان کی کتاب نہیں بکتی۔ لوگوں کو پتہ تک نہیں چلتا کہ ان کے پڑوس میں اتنا بڑا ادیب رہتا ہے ۔یہ ادیب کیا کریں؟
جواب: ادیب فائدے کے لئے نہیں لکھتے ۔اگر وہ شہرت کی خواہش رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ لوگ ان کی تحریروں کو پڑھیں تو میں کچھ عملی طریقے بتائے دیتا ہوں ۔میرا جی کی طرح عجیب و غریب حلیہ بنا لیں ،عجیب و غریب کپڑے پہنیں اور عجیب و غریب عادتیں اپنالیں۔ آسکر وائلڈ ہوٹلوں میں قیام کرتا تھا اور بل ادا کئے بغیر چپکے سے وہاں سے کھسک جاتا تھا۔ ہوٹلوں والے اس کا گلہ لوگوں کے سامنے کرتے رہتے ۔اس کے خلاف اخباروں میں اشتہار دیتے اور کئی ہوٹلوں میں یہ تختی لکھ کر لگا دیتے کہ وہ ان کا بل ادا کیے بغیر بھاگ گیا ۔آسکر وائلڈ کو دوست اس حرکت سے باز رہنے کا کہتے تو وہ ہنس کر جواب دیتا کہ شہرت حاصل کرنے کا یہ ایک سستا اور کامیاب طریقہ ہے ۔سعادت حسن منٹو ادبی جلسوں میں بن بلائے پہنچ جاتا اور تقریر شروع کر دیتا۔ یہ طریقے بھی آسانی سے اپنائے جا سکتے ہیں ۔جنگ عظیم دوم میں اپنے حق میں پراپیگنڈہ کے لئے کچھ ادیب فوج میں بھرتی کر لیے گئے۔ فیض احمد فیض کرنل بھرتی ہوئے۔ وہ مشاعرہ پڑھنے جاتے تو وردی پہنچ کر جاتے تاکہ نمایاں ہو جائیں۔ ن۔م۔راشد اپنی کتاب بوری میں بھر کر ساتھ لیے پھرتے ۔یہ اپنے مقصد میں کامیاب رہے ۔ان کی پیروی مشکل تو نہیں۔
سوال: ادبی خدمات کے اعتراف میں دئیے جانے والے انعامات کی آپ کے نزدیک کیا اہمیت ہے؟
جواب: کوئی اہمیت نہیں ۔اب تو نوبل پرائز بھی بے وقعت ہوتا جا رہا ہے۔
سوال: کبھی آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ آپ کو صدارتی ایوارڈ ملے؟
جواب: بالکل نہیں۔
سوال: طنزو مزاح اظہار کے دو مختلف پیرائے ہیں۔ اس کے باوجود ان کو اکٹھا لیا جاتا ہے ۔کیا یہ درست ہے؟
جواب: یہ فطری طور پر اکثر یکجا ہو جاتے ہیں ۔پنجاب کے اکثر ہوٹلوں میں بہت چھوٹی پیالیوں میں چائے بکتی ہے۔ ایک ایسے ہوٹل میں ایک پٹھان آیا اور چائے کی فرمائش کی ۔ہوٹل والے نے چائے بنا کر پیالی میں ڈالی اور پیالی اس کے سامنے رکھ دی ۔پٹھان نے اس کو دو گھونٹوں میں ختم کرتے ہوئے ہوتل والے کو مخاطب کیا۔ ”چائے ٹھیک بنی ہے بھجوا دو۔“ ہوٹل والا اس کے منہ کی طرف دیکھنے لگ گیا۔ پٹھان کے خیال میں اتنی تو چکھنے کے لئے ہوتی ہے۔ اس واقعے میں طنز بھی ہے اور مزاح بھی۔
سوال: کن افسانہ نگار خواتین کو آپ ادب کی آبرو سمجھتے ہیں؟
جواب: قرة العین حیدر، جیلانی بانو اور بانو قدسیہ۔
سوال: کیا ادب کو ٹرین کی طرح زنانہ و مردانہ ڈبوں میں تقسیم کرنا درست ہے؟
جواب: ایک مشاعرے میں ایک شاعر کو دعوت کلام دی گئی۔ اس کا نام سیتا رام تھا۔ اس پر ظریف جبل پوری نے یہ شعر کہہ ڈالا:
نر ہے یا مادہ عجب ترکیب ہے اس نام کی
کچھ حقیقت ہی نہیں کھلتی ہے سیتا رام کی
مجھے شعر اسی طرح یاد رہ گیا ہے۔ ہو سکتا ہے اس میں کوئی غلطی ہو آج کل زنانے اور مردانے ادب کی یہی کیفیت ہے۔ فرق ہوتا ہے لیکن اس قدر نہیں۔ یہ تقسیم مناسب نہیں۔
سوال: افسانوی ادب کے پیش نظر فرمائیے کہ جدیدیت کی حدیں کہاں سے شروع ہو کر کہاں ختم ہوتی ہیں؟
جواب: میرے نزدیک زندگی ارتقاءکے راستوں پر گامزن ہے۔ جو کچھ ظہور پذیر ہو رہا ہے وہ گزرے زمانے کے مقابلے میں جدید ہے۔ افسانہ ساتھ ساتھ اس کی ترجمانی کر رہا ہے۔ ادب میں خاص کرجدیدیت کو یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ یہ جہان اور یہ زندگی بے معنی ہیں۔
سوال: الیکٹرانک میڈیا ادب کے فروغ میں کوئی کردار ادا کر رہا ہے؟
جواب: کوئی خاص کردار ادا نہیں کر رہا۔
سوال: کیا افسانوں کی ڈرامائی تشکیل ہو تو افسانوں کے خالقوں اور ناظرین کو بہت کچھ نہیں مل سکتا؟
جواب: مل سکتا ہے۔
سوال: اس میں کیا امر مانع ہے؟
جواب: ڈرامائی تشکیل پیش کرنے والوں کی مرضی اور موثر سفارش کا نہ ہونا۔
سوال: اگر آپ افسانہ نگار نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟
جواب: مدر ٹریسا کا نائب۔
سوال: آپ کو اپنی کون سی کتاب پسند ہے؟
جواب: زخم گواہ ہیں۔
سوال: آپ کو کون سی تخلیق پر زیادہ پذیرائی ملی؟
جواب: دن میں چراغ پر۔
سوال: آپ نے اپنی تخلیقات میں کون سے نئے تجربات کیے؟
جواب: میں نے اپنے ناول زخم گواہ ہیں میں کچھ ابواب کے شروع میں ایک مختصر مضمون لکھا تاکہ اس باب میں پیش آنے والے واقعات کو سمجھنے میں مدد ملے اور پیرایہ اظہار میں زور پیدا ہو۔ میں نے اپنے ناولوں میں خاص کر ایسے واقعات لکھے ہیں جو باعث معلومات، دلچسپی اور تحریر کی جان ہوتے ہیں۔ مزید براں افسانچوں کی بنیاد مکالمات پر رکھی۔
سوال: ادب میں روایت سے انحراف کو آپ کس زاویے سے دیکھتے ہیں؟
جواب: میں روایت کا بہت زیادہ قائل ہوں ۔جہاں انحراف بہت ضروری ہو تو جائز ہے۔
سوال: آپ کے افسانچے اتنے خوبصورت ہیں کہ ان کی بنیاد پر جوگندر پال کو بھارت کا عباس خان قرار دیا جا سکتا ہے۔ آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: میں آپ کا دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں کہ آپ نے اکثر مقامات پر میری تخلیقات کو سراہا ہے اور اب مجھے جوگندر پال کا مقام دیا ہے۔
سوال: آپ کا نظریہ فن کیا ہے؟
جواب: مجھے ڈی ایچ لارنس کی صرف ایک بات اچھی لگتی ہے ۔اس سے پوچھا گیا کہ وہ ادب برائے ادب پر یقین رکھتا ہے ۔یا ادب برائے زندگی پر۔ اس نے جواب دیا کہ وہ دونوں پر یقین نہیں رکھتا ۔وہ ادب برائے خود پر یقین رکھتا ہے ۔وہ وہی لکھتا ہے جو اس کو تسکین پہنچائے۔ میں ادب برائے زندگی پر یقین رکھتا ہوں لیکن اس میں اپنی زندگی شامل کر کے۔
سوال: تخلیق آپ کے ذہن میں مکمل منقش ہوتی ہے یا لکھنے بیٹھتے ہیں تو اس وقت سوچ بچار کا عمل شروع ہوتا ہے؟
جواب: مرکزی خیال اور تخلیق کا ڈھانچہ ذہن میں مکمل منقش ہوتا ہے۔ لکھتے وقت جزئیات کے بارے میں سوچ بچار کا عمل شروع ہوتا ہے۔
سوال: تخلیق میں شعوری کوشش کا کتنا دخل ہوتا ہے؟
جواب: تخلیق کار کی تخلیقی صلاحیت کے حساب سے۔
سوال: افسانے نے جو کروٹیں بدلی ہیں آپ انہیں کس زاویے سے دیکھتے ہیں؟
جواب: وہ حالات کی پیداوار تھیں ۔مجھے ترقی پسندی والی کروٹ اچھی لگتی ہے۔
سوال: علم و ادب میں آپ کیا حد فاضل قائم کریں گے؟
جواب: وہی جو عقل و عشق میں ہے۔
سوال: آپ کی طبیعت میں اتنا انکسار کہاں سے آیا؟
جواب: خود آگہی سے۔
سوال: تخلیقی عمل کیا ہے؟
جواب: اس جہان کے اثرات کا پیدا کردہ ردعمل یا جبلتوں کا اظہار۔
سوال: آرٹ اور کرافٹ کہاں جا کر ایک ہوتے ہیں؟
جواب: جہاں عقل اور وجدان آپس میں سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔
سوال: آمد کے ساتھ آورد نہ ہو تو کیا کسی فن پارے کی تکمیل ممکن ہے؟
جواب: ممکن ہے لیکن بہت کم حالتوں میں۔ میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ ڈاکٹر لوکس پرنسپل ایف سی کالج لاہور نے علامہ اقبال سے پوچھا کہ آپ کے نبی کے دل میں کوئی خیال آتا ہوگا تو وہ متعلقہ اصحابؓ کو لکھوا دیتے ہوں گے۔ یوں قرآن مجید وجود میں آگیا۔ کیا آپ کو اس رائے سے اختلاف ہے؟ علامہ صاحب نے جواباً کہا، ڈاکٹر صاحب میں ان کے جوتوں کے برابر بھی نہیں لیکن مجھ پر من و عن نظم و غزل و دیگر اصناف نازل ہوتی ہیں ۔کیا ایک نبی پر من و عن سورة یا ایت نازل نہیں ہو سکتی۔
سوال: ابہام آپ کے نزدیک سقم ہے یا حسن؟
جواب: ادبی تخلیق میں سقم ہے۔
سوال: توارد اور سرقہ۔ پتہ کیسے چلے؟
جواب: تحقیق سے۔
سوال: غیر ملکی ثقافتی یلغار کا اکثر رونا رویا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہماری ثقافتی فصیلیں اتنی کمزور کیوں ہیں کہ انہیں غیر ملکی ثقافتی یلغار سے خطرہ رہتا ہے؟
جواب: ہم نہیں بلکہ ہر انسان لذتوں اور آسائشوں کو پسند کرتا ہے اور رنج و الم و محنت سے دور بھاگتا ہے۔ لذتوں اور آسائشوں کی ترغیب ملے تو کون ادھر نہیں جائے گا۔
سوال: ثقافت ٹھہرا ہوا پانی نہیں۔ یہ ایک بہتے دریا کی طرح ہے۔ پھر ہم اس کو بچا کر کیوں رکھنا چاہتے ہیں؟
جواب: اس لیے کہ اس کا پانی گدلا نہ ہو۔
سوال: آپ اپنے فن پر معاشرے کے کون کون سے اثرات محسوس کرتے ہیں؟
جواب: فطرت انسانی کے پیدا کردہ تمام اثرات خاص کر عدم مساوات۔
سوال: افسانہ نویسی کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟
جواب: میں ایل ایل بی کا طالب علم تھا جب میں نے پہلا افسانہ آخری شام کے عنوان سے لکھا۔ سال 1966ءتھا۔
سوال: دنیا کو کیا پیغام دیں گے؟
جواب: آئن سٹائن کے الفاظ میں پیغام تو وہ دیتے ہیں جنہوں نے خاطر خواہ کچھ نہ کیا ہو۔
لادوا
عباس خان
غلام فرید نمبردار نے تحصیلدار صاحب کے استقبال و رہائش کے لئے خاطر خواہ تیاری کی تھی۔ ڈیرے کا کونہ کونہ صاف کرایا گیا ۔ڈیرے کی جنوبی دیوار کے ساتھ باہر کی طرف خشک گوبر کا ڈھیر پڑا تھا جسے اٹھوایا گیا۔ قریب ہی چھوٹا سا گڑھا تھا جو مٹی سے پر ہوا، بھینسوں کے باندھنے کی جگہ وقتی طور پر تبدیل کر دی گئی اور ہر دو بیٹھکوں کی لپائی عمل میں لائی گئی ۔سردیوں کا موسم تھا لہذا دن کو دھوپ میں بیٹھنے کا اور رات کو بیٹھکوں میں سونے کا عمدہ انتظام کیا گیا۔ زیادہ سردی سے بچنے کے واسطے آگ کی ضرورت پڑ سکتی تھی چنانچہ اس مقصد کے واسطے خشک لکڑیوں کا ڈھیر لگا دیا گیا۔ چادریں ، تکیے، بستروں کے دوسرے لوازمات، کھانے پینے کے برتن، کرسیاں، میزیں، پلنگ و چارپائیاں غلام فرید کے گھر میں اتنی تعداد میں موجود تھیں کہ سب کے واسطے کافی تھیں ۔عزیز احمد حجام نے کچھ ایسی چیزیںباہر سے منگوانے کی رائے دی جو اس نے رد کر دی۔
تحصیلدار صاحب نے تقریباً دن کے گیارہ بجے پہنچنا تھا۔ صحن میں دھوپ کے رخ ان کے واسطے خاص پلنگ بچھایا گیا۔ اس کے قریب ہی گرداوروں کے واسطے تین رنگ دار چارپائیاں رکھی گئیں ۔ان کے بالمقابل ایسی ہی پانچ چھ چارپائیاں پٹواریوں کے واسطے تھیں ۔نزدیک ہی ایک طرف کر کے کرسیوں کی ایک لمبی قطار لگا دی گئی۔ چھوٹی بڑی میزوں کو وسط میں جگہ ملی۔ ڈیرے کے ایک غیر اہم حصے میں بہت سی عام چارپائیاں ڈال دی گئیں تاکہ گاﺅں کے باسی اور دوسرے طلبیدہ اشخاص بیٹھ سکیں۔ کھانے پینے کا جو انتظام تھا وہ ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل کے مینو کے مشابہ تھا۔ یہ سب کچھ کمشنر صاحب کی سخت ہدایات کے باوجود تھا۔
کمشنر صاحب نے ڈویژن کا نیا نیا چارج لیا تھا۔ ان کے متعلق مشہور تھا کہ معمولی سے معمولی غلطی پر وہ بڑے سے بڑے ماتحت کو اس طرح جھاڑو دیتے تھے جیسے کوئی تند مزاج موٹرمکینک اپنے نو آموز شاگردکو۔ انہوں نے آتے ہی سخت ہدایات جاری کیں۔کوئی اہلکار اور افسر خاص کر جو محکمہ مال سے متعلق ہے کسی علاقے کے زمیندار یا دوسرے آدمی کے پاس نہیں ٹھہر سکتا۔ اسی طرح کوئی ملازم جو محکمہ مال میں ہے کسی زمیندار سے چائے تک نہیں پی سکتا ۔زمینداروں کی کاریں اور گھوڑے مانگنے پر پابندی ہے ۔کسی نے اگر ان احکامات کی خلاف ورزی کی تو فوری معطلی اور پھر حسب ضابطہ انکوائری ہوگی۔ الزام درست ثابت ہونے پر ملازمت سے برطرفی یقینی ہے۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ احکامات کی پابندی ہوتی ہے کہ نہیں کمشنر صاحب نے ایسے کئی آدمی مقرر کر دئیے تھے جو خفیہ رپورٹنگ کرتے تھے۔ نائب تحصیل دار محمد اشرف ایک زمیندار کی کار میں معہ بیوی بچوں کے سفر کرتے ہوئے پکڑا گیا لہذا سزا یاب ہوا۔ پٹواری شیر محمد ایک زمیندار کے مکان میں بغیر کرائے کے رہنے کی وجہ سے برطرف ہو چکا تھا اور پٹواری علی احمد کو رشوت لینے کے الزام میں نہ صرف برطرف کیا گیا بلکہ عدالت انٹی کرپشن سے قید کی سزا بھی ہوئی۔غلام فرید کو ان احکامات کا پتہ تھا لیکن سزاﺅں کا پتہ نہ تھا۔ وہ ان احکامات کو پہلے آنے والوں کے احکامات کی طرح بچوں کی طرف سے جوہڑوں میں تیرائی جانے والی کاغذی کشتیاں ہی سمجھتا رہا۔ کون زمیندار ہے جو پٹواری، گرداورد تحصیلدار کی رنجش مول لے سکتا ہے ۔زمیندار کی جان زمین میں ہوتی ہے اور زمین کی جان ان ملازمین میں۔ چنانچہ اس نے بغیر کسی پرواہ کے اپنی پسند کا انتظام کیا۔
تحصیلدار صاحب صبح نو بجے شہر سے سرکاری جیپ پر روانہ ہوئے ۔شہر سے گاﺅں کودو میلوں تک پکی سڑک جاتی تھی۔ اس سے آگے کچا راستہ شروع ہوتا تھا۔ جہاں سے کچا راستہ شروع ہوتا تھا وہاں پر گھوڑے تیار کھڑے تھے جو صاحب اور اس کے عملے کو لے کر روانہ ہوئے۔
منزل مقصود پر پہنچ کر تحصیلدار صاحب نے جب انتظام و انصرام کا یہ مظاہرہ دیکھا تو ذرا گھبرا گئے۔ کمشنر صاحب کی ہدایات و احکامات فوراً ان کے ذہن میں گھوم گئے ۔اس کے ساتھ ہی انہیں اپنی اہمیت کا احساس ہوا۔ سوچا کہ پریشانی ظاہر کرنا اب بزدلی کے مترادف ہوگا لہذا وہ ایک افسرانہ شان سے گھوڑے پر سے اترے۔ سلام کرنے کے بعد نمبردار روایتی بادشاہوں کے چوبداروں کے انداز میں آگے آگے روانہ ہوا اور جھک جھک کر ہاتھوں کے اشاروں سے ان کو ان کے پلنگ کی طرف لے گیا۔ دوسرے اہلکار خودبخود پیچھے آگئے۔ ان کی رہنمائی نمبردار کے نوکروں اور عزیزوں نے کی۔ ہر ایک کو درجہ بدرجہ اس کے مقام تک پہنچا دیا گیا ۔تحصیل دار صاحب کو دل ہی دل میں ابھی تک پریشانی تھی۔ کوئی آج کے تکلف کی مخبری کر سکتا ہے جس سے نہ صرف ملازمت جائے گی بلکہ بے عزتی بھی ہوگی ۔انہوں نے نمبردار کو قریب بلا کر رازداری کے عالم میں کہا، ”کمشنر صاحب بہت دیانت دار آدمی ہے۔ وہ ہم سے بھی سخت دیانت داری کی توقع رکھتا ہے۔ کسی لغزش کی صورت میں اس کی طرف سے دی جانے والی سزا بہت کڑی ہوتی ہے۔ آپ کے یہ اخراجات کہیں پریشانی کا باعث نہ بن جائیں۔“
”صاحب آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ کمشنر اپنا خوبصورت دفتر چھوڑ کر بغیر کار کے کب ادھر چھاپہ مارنے والا ہے ۔اس کھردرے علاقے میں کبھی کوئی افسر نہیں آتا۔ یہ تو آپ کی فرض شناسی ہے کہ آپ نے اتنی زحمت کی، فکر نہ کریں۔ یہاں سب اپنے آدمی ہیں۔ کوئی کسی کی رپورٹ یا شکایت نہ کرے گا،“ نمبردار نے ایک عقیدت مند کی طرح جواب دیا۔
”غلام فرید تم ٹھیک کہتے ہو لیکن کسی کا بھروسہ نہیں ۔کمشنر کی ہدایات ہیں کہ ہم ہر کام قانون اور حقائق کے مطابق کریں۔ اس بناءپر موقع پر یہاں آنا میرے واسطے ضروری تھا پر آپ نے یہ سب کچھ مجھ سے پوچھ کر کرنا تھا۔ یہ مرغ اور بٹیرے وغیرہ جو ادھر ذبح ہو رہے ہیں خدا کے واسطے انہیں کہیں جلد از جلد چھپاﺅ۔ میں کھانا گھر جا کر کھاﺅں گا“ ،تحصیل دار صاحب نے بدستور گھبراہٹ کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ نمبردار یہ سن کر مسکرا دیا۔ کچھ دیر تحصیل دار صاحب کو تسلی دینے کے بعد وہ اندرون خانہ چلا گیا۔
دراصل تحصیلدار صاحب کو خود نمبردار پر ہی اعتماد نہ تھا۔ نمبردار غلط کام کرانے کا عادی تھا۔ ممکن ہے وہی اسے اس بات پر بلیک میل کرے۔ کسی وقت غلط کام نہ ہونے کی صورت میں وہ خود کمشنر کو شکایت کر دے گا۔ اتنے میں دوسرے گاﺅں سے ایک وفد ملاقات کے واسطے آگیا جس وجہ سے ان کا دھیا ن ادھر سے ہٹ گیا۔ انہوں نے وفد کو دیکھ کر چہرے پر مصنوعی جلال طاری کر لیا اور چائے کی طرف کمال مہربانی سے متوجہ ہوئے جو اسی دوران میں پہنچ چکی تھی۔
سرکاری کام اتنا زیادہ نہ تھا۔ گیارہ انتقالات اراضی تصدیق ہونے تھے، ایک حد برار ی کرنی تھی اور دو باقی داروں سے مالیہ وصولی کا معاملہ تھا۔ چائے پینے کے بعد تصدیق انتقالات کا سلسلہ شروع ہوا۔ دو گھنٹوں میں سارے کے سارے انتقالات تصدیق ہو گئے۔ اس کے بعد موقع پر جا کر حد براری کی گئی ۔دوپہر کے دو بجے کھانا کھایا گیا۔ کھانے کے بعد مالیہ کی وصولی کا کام شروع ہوا ۔یہ کام تکمیل کو نہ پہنچ سکا کیونکہ تحصیل کے چپڑاسیوں کی طرف سے خفیہ اطلاع پا کر باقی داران چھپ گئے تھے۔ کچھ وقت لوگوں کی تکالیف سننے میں صرف ہوا۔ بعدازاں زمینداروں سے ملاقات کا سلسلہ اتنا دراز ہوا کہ شام ہو گئی ۔زیادہ دیر ہو جانے کی وجہ سے رات وہیں بسر کرنے کا پروگرام طے پایا۔
دوسرے دن صبح سویرے جب نمبردار نوکر سے بیڈ ٹی کی ٹرے اٹھوائے کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ تحصیل دار صاحب پلنگ پر تین تہہ ہو کر پڑے تلملا رہے ہیں اور عملے کے آدمی ارد گرد جمع ہیں ۔وہ چائے کی ٹرے کو چھوڑ کر فوراً ادھر متوجہ ہوا۔ صورت حال سنگین تھی۔ مہمان کو گردے کا ورد شروع ہو گیا تھا۔ بغرض علاج نمبردار حکیم گل قند کے گھر کی طرف دوڑ پڑا۔
حکیم گل قند اپنے عجیب و غریب نسخوں کی وجہ سے علاقے میں کافی مشہور تھا ۔وہ ہر دورائی گل قند کے ساتھ کھلاتا تھا اس واسطے گل قند کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ نمبردار کو حکیم پر مکمل اعتماد تھا اس لیے اس نے کسی دوسری طرف توجہ نہ دی اگرچہ قرب و جوار میں چند اور معالج بھی رہتے تھے۔ اسے لانے میں کوئی اتنی زیادہ دیر نہ لگی۔ چند لمحوں میں اس نے حکیم کو پکڑ کر مہمان کے سرہانے لا کھڑا کیا۔
حکیم نے نبض دیکھی، زبان کا مشاہدہ کیا اور پھر پیٹ ٹٹول کر دوائیوں کا تھیلا کھولا۔ ایک خاص شیشی میں سے ایک سفوف نکالا اور گل قند میں حسب معمول ملا کر صاحب کو کھلا دیا۔ اسے اپنے نسخے پر اتنا مان تھا کہ سب کو تسلی دے کر مہمانوں کے واسطے ناشتہ لانے کو کہا اور خود حقے کی طرف متوجہ ہو گیا۔
نسخہ کارگر نہ ہوا۔ دوائی سے بیماری بجائے کم ہونے کے اور شدید ہو گئی۔ حکیم حیران تھا۔ اس نے کچھ دیر انتظار کیا پھر چائے میں ٹھنڈا پانی ملا کر صاحب کو اس مرکب کے دو تین گلاس پلا دئیے۔ یہ مرکب جلد اثر انداز ہوا ۔تحصیلدار صاحب کو چھوٹا پیشاب آتا محسوس ہوا۔ احسان احمد پٹواری نے تحصیل دار صاحب کو کندھے کا سہارا دے کر باہر لے جانا چاہا تاکہ پیشاب کرا لائے مگر بستر پر سے سر اٹھاتے ہی مریض کی کراہٹیں نکل گئیں۔ آہستہ سے آواز آئی،
”مجھ سے اٹھا نہیں جاتا لہذا میں باہر پیشاب کرنے نہیں جا سکتا۔“ اس پر سب نے کمرہ خالی کر دیا اور انہوں نے ایک لوٹے میں بستر پر بیٹھے بیٹھے پیشاب کیا۔
خیال تھا کہ پیشاب آنے سے تکلیف میں کچھ کمی واقع ہو جائے گی لیکن متوقع کمی واقع نہ ہوئی۔ حکیم گل قند نے ایک تیسرا نسخہ آزمایا۔ جب دیکھا کہ تکلیف کم نہیں ہوتی تو مزید علاج سے اپنی معذوری ظاہر کر دی۔
گاﺅں سے کچھ فاصلے پر ایک اور حکیم مطب کرتا تھا ۔وہ حکیم گل قند کا جزوی طور پر استاد بھی تھا ۔کچھ لوگوں کے خیال میں وہ گل قند سے زیادہ سمجھدار تھا۔ گرداور فقیر محمد ایک گھنٹے میں اسے گھوڑے پر بٹھا لایا۔
دوسرے حکیم نے اپنی عادت کے مطابق مریض کو پرکھا، حکیم گل قند سے چند باتیں کیں جن میں علاج کا تذکرہ تھا اور بعد ازاں اپنے جھولے سے دو تین ٹافی نما ٹکیاں نکال کر مریض کو کھلا دیں۔ اس دوائی کا اثر بتدریج ظاہر ہونا شروع ہوا۔ اس سے نہ صرف قے شروع ہو گئی بلکہ دست بھی آنے لگ گئے۔ چھوٹے پیشاب کا تو حساب ہی نہ تھا۔ قے و پیشاب ہائے نے صورت حال زیادہ پریشان کن بنا دی۔ طبیعت ذرہ بھر ٹھیک نہ ہوئی۔ الٹا دل کی دھڑکن میں اضافہ ہو گیا۔ اس پر دو حکیموں کے بورڈ نے آپس میں کچھ مشور کیا اور کچھ دیر بعد بلند آواز سے اعلان کیا کہ صاحب کو ایسی پتھری کی شکایت ہے جو بغیر آپریشن کے نہیں نکل سکتی لہذا انہیں فوراً کسی اچھے ہسپتال میں پہنچایا جائے۔
سب بہت پریشان تھے۔ پٹواری اور گرداور جو چھپ کر دوسرے کمرے میں پیٹ پوجا کر آئے تھے تازہ دم ہونے کی صورت میں کچھ زیادہ ہی پریشانی کا اظہار کرنے لگے۔ ان میں سب سے زیادہ فکر نمبردار کو تھی۔ وہ میزبان تھا۔ مہمان کو تکلیف اس کے ڈیرے پر لاحق ہوئی ۔اگرچہ اس تکلیف میں اس کا رتی پھر قصور نہ تھا اور سب کچھ قدرتی طور پر ہوا لیکن اس کے باوجود وہ ایک خفت سی محسوس کر رہا تھا ۔وہ بے حد فدویانہ انداز میں مریض کے قریب پہنچا اور غمگین انداز میں بولا،
”صاحب جی آپ کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی۔ اللہ آپ کو شفا کاملہ عطا کرے، حکیم کہتے ہیں کہ آپ کو پتھری کی تکلیف ہے ۔آپ کو کسی اچھے ہسپتال میں پہنچایا جائے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا آپ گھوڑے پر بیٹھ سکیں گے؟“
”شہر لے چلو۔ میں بے حد تکلیف میں ہوں۔ واضح رہے کہ میں گھوڑے پر نہیں بیٹھ سکتا،“ تحصیلدار صاحب نے ادھر ادھر سر ہلاتے ہوئے بڑی بے چینی سے جواب دیا۔
اتنے میں محمد حسین مستری آگے بڑھا ۔اس نے تحصیلدار صاحب اور نمبردار دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ،”حکیم نبی احمد کو بھی دیکھ لیں ۔اس کے پاس پتھری کو حل کرنے کا ایک نادر نسخہ موجود ہے۔ صاحب کو بیماری کی حالت میں یہاں سے واپس لے جانا ہم سب کے واسطے باعث شرمندگی اور ندامت ہوگا۔ “
فقیر محمد دکاندار نے محمد حسین کی تائید کی ۔ممتاز احمد انڈے فروش کو دونوں سے اختلاف تھا ۔وہ چاہتا تھا کہ مریض کا علاج کسی مستند ڈاکٹر سے کرایا جائے۔ مستند ڈاکٹر اس کی نظروں میں خورشید احمد تھا جو عمر بھر سی ایم ایچ راولپنڈی میں نرسنگ کے فرائض سرانجام دے دے کر ریٹائر ہوا تھا اور اب بستی موچیانوالی میں پریکٹس کرتا تھا ۔موقع پر موجود اکثر آدمیوں کو ممتاز احمد سے اتفاق تھا۔
منشی تقدیر علی نے مولوی کی فوراً ہی تردید کر دی، ”وہ ڈاکٹر نہیں ہے۔ اس کی تو محض انگریزی دوائیوں کی دکان ہے ۔اس سے علاج کرانا قطعاً مناسب نہیں۔
“
“
مولوی بھلا کب دبنے والا تھا اس نے منہ توڑ طریقے سے جواب دیا،
”تم نے کبھی وہاں جا کر دیکھا ہے۔ چوبیس گھنٹے وہاں مریضوں کی قطار لگی ہوتی ہے۔ جتنا دوائی کے استعمال سے ڈاکٹر نعمان واقف ہے اور کوئی نہیں۔ بیماری میں دوائی کی ہی تو ساری اہمیت ہوتی ہے ۔دوسرے ڈاکٹروں کو دیکھو بیٹھے مکھیاں مار رہے ہیں۔ تپ محرقہ میں خود مجھے ڈاکٹر نعمان کی دوائیوں سے افاقہ ہوا۔
“
“
مولوی کو مناظرانہ صورت میں گفتگو کرتے دیکھ کر چند آدمیوں نے اسے خاموش کرا دیا۔ وہ ناراض ہو کر باہر نکل گیا۔
کثرت رائے کا احترام کرتے ہوئے خورشید احمد کو پیغام بھیجا گیا ۔خورشید احمد کو آنے میں تامل تھا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ کچھ نہیں جانتا مگر سقراطانہ قسم کی اس حقیقت کو واضح کر کے وہ اپنی ”پریکٹس“ کا علاقے میں بیڑا غرق کرنا نہیں چاہتا تھا ۔اس نے بڑے تحمل سے کہلا بھیجا ،”مجھے ریٹائرڈ میجر جنرل پی۔بی ملک نے اپنے بیٹے کے علاج کے واسطے بلایا ہے لہذا آنے سے معذور ہوں۔
“
“
ممتاز احمد خود کو روک نہ سکا۔ وہ بھاگ کر خورشید احمد کے پاﺅں پر گر گیا اور انکساری سے کہا ،”جناب ہم نے صاحب کے سامنے آپ کے باکمال ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ آپ ہی اسے تکلیف سے بچا سکتے ہیں ۔ہمیں توقع ہے کہ آپ ہمارے ساتھ چل پڑیں گے۔ خدارا تھوڑی دیر کی تکلیف گوارا کر لیں ہم آپ کو فوراً واپس پہنچا جائیں گے۔“ جب دوسرے آدمیوں نے جو ممتاز احمد کے ساتھ آئے تھے ممتاز احمد کی تائید کی اور منت سماجت کی تو خورشید احمد کا دل پسیج گیا۔ اس نے چند منٹوں میں تیاری کی ،دوائیوں کا تھیلا ممتاز احمد کو پکڑایا اور روانہ ہو گیا۔
اس عرصے میں محمد حسین نبی احمد کو لے آیا۔ لوگوں کا ہجوم اور بھاگ دوڑ دیکھ کر کچھ فقیر اور سنیاسی معہ اپنے اپنے بے مثال نسخہ جات کے از خود وہاں پہنچ گئے ۔گئی رات تک علاج ہوتا رہا لیکن تکلیف وہیں کی وہیں رہی۔ آخرکار یہ طے پایا کہ مریض کو شہر لے جایا جائے۔
رانا نسیم احمد سے ٹریکٹر اور ٹرالی اس مقصد کے واسطے مانگی گئی۔ مریض نے ٹرالی کے ذریعے جانے سے انکار کر دیا ۔راستہ زیادہ تر کچا تھا چنانچہ ٹرالی میں انہیں تکلیف ہوگی۔ محمد عثمان ساربان بولا کہ وہ اپنا اونٹ لے آتا ہے۔ محمل کی سواری اس کے مقابلے میں زیادہ آرام دہ ہے۔ مریض نے محمل میں جانے سے بھی انکار کر دیا۔ اس کی وجوہات یہ بتائی گئیں کہ اونٹ دیر سے پہنچے گا۔ نیز اس میں بھی ہچکولے آئیں گے۔ تیسرے، راستے میں اگر پیشاب آیا تو اس میں سے نکلنے میں دیر لگے گی ۔جس کثرت سے پیشاب آرہا ہے اس کے پیش نظر یہ پریشانی مول لینی مناسب نہیں۔
ایک دکاندار نے ٹرک منگوانے کا مشورہ دیا پر یہ بھی تکلیف سے خالی نہ تھا اور نامنظور کر دیا گیا۔
جب اور کوئی صورت باقی نہ رہی تو مجمع نے مریض کا پلنگ کندھوں پر رکھا اور شہر روانہ ہو گیا۔ صبح کی اذان ہو رہی تھی جب مجمع شہر میں داخل ہوا۔ سب کی رائے تھی کہ سیدھا ہسپتال جایا جائے۔ مریض نے سب کی رائے کو ٹھکراتے ہوئے کہا کہ اسے گھر پہنچایا جائے۔ گھر میں وہ پہلے بیوی بچوں سے ملنا چاہتے ہیں۔ انہیں گھر چھوڑ کر سب واپس چلے جائیں کیونکہ اتنا بڑا مجمع ان کا تماشہ بن گیا ہے۔ گھر سے ان کے نوکر اور گھر والے انہیں یا تو ہسپتال لے جائیں گے یا ڈاکٹر کو وہیں بلا لیں گے۔
تحصیل دار صاحب کے حکم کو ٹالنے کی کس کو مجال تھی۔ سب بنگلے کی طرف روانہ ہوئے۔ اتنے میں پٹواری کرم بخش نے گھر جا کر اطلاع دے دی۔ جب سب تحصیل دار صاحب کے گھر کے دروازے پر پہنچے تو نوکر اور بچے باہر پریشان کھڑے تھے اور اندر سے بیگم صاحبہ کے رونے کی آوازیں آرہی تھیں۔ جونہی پلنگ اندر پہنچا تو بیگم صاحبہ کو بڑے بیٹے نے بہت کہا کہ وہ پردہ کرے لیکن وہ غم سے نڈھال چادر لپیٹے پلنگ کے ساتھ چمٹ گئی ۔پلنگ اندر رکھ کر سب باہر چلے گئے۔ بیوی اور بچوں کی آہ و بکا سن کر مریض نے چپکے سے اپنے منہ سے رضائی سرکائی اور ادھر ادھر دیکھا۔ جب تسلی ہوئی کہ قریب کوئی نہیں تو آہستہ سے کہا، ”بیگم! کمشنر بہت سخت آدمی ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے تم جانتی ہو کہ ہم تحفے نہیں لے سکتے۔ دوسرے نمبردار بھی ناقابل اعتبار آدمی ہے۔ جس پلنگ پر مجھے لائے ہیں مجھے بے حد پسند آیا۔ اسے گھر لانے کا یہی ایک طریقہ مجھے محفوظ لگا ہے۔ تم لوگ رونا بند کردو۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔
“
“
یہ سنتے ہی بیگم صاحبہ کے آنسو تھم گئے لیکن آہ و بکا کی آواز زیادہ بلند ہو گئی۔ بچے مسکرانے لگ گئے۔ نوکر دور کھڑے اس منظر کو دیکھ کر حیران ہوئے جا رہے تھے۔
ولی
عباس خان
مجیب اللہ اولیاءاللہ اور ان کی کرامات کے متعلق باتیں سن سن کر کسی ولی اللہ کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔
اس تلاش کا مقصد اس کی کسی آرزو کی تکمیل نہیں تھا ۔اس کی کوئی بھی ایسی آرزو نہیں تھی جو پوری ہونے والی ہو۔ مالی طور پر وہ مضبوط تھا۔ اس کی شادی اس کی پسندیدہ لڑکی سے ہوئی۔ اس شادی سے اللہ تعالیٰ نے اس کو بیٹیاں عطا کیں اور بیٹے بھی اور یہ سب تعلیم میں بہت نمایاں اور ماں باپ کا کہا ماننے والے تھے۔ اس کے لئے ایک عالی شان بنگلہ شہر کے جدید ترین علاقے میں اس کے والد نے اس کی تعلیم کے اختتام پر ہی بنوا لیا تھا۔ سواری کے لئے دو کاریں تھیں۔ ان میں سے ایک اس کی اپنی تھی اور ایک اس کی بیگم جہیز میں لائی تھی۔ کسی مقدمے بازی کا سامنا نہیں تھا، کسی بیماری سے صحت یاب ہونے کی فکر نہیں تھی اور نہ کوئی اعلیٰ مرتبہ حاصل کرنے کا جنون، وہ صرف روحانی تسکین کی خاطر جو ایک برگزیدہ ہستی کی صحبت سے حاصل ہو سکتی ہے ادھر متوجہ ہوا۔ نیز وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ صاحبان کرامات کیسے ہوتے ہیں۔
وہ پورے دس سال سرگرداں رہا۔ مزاروں پر جا بیٹھا، قبرستانوں کی خاک چھانی، بھیک مانگنے والوں کا تعاقب کیا اور کئی دیوانوں پر نظر رکھی۔ مسجدوں میں عابد لوگوں کے قریب تو وہ پہلے سے رہتا تھا ۔مزید براں جہاں کہیں کسی ایسی ہستی کا پتہ چلا وہ وہاں پہنچا۔ اس کو مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔ یہ بات نہیں کہ ان جگہوں پر نیک شخصیتوں کی کمی تھی۔ ہر جگہ اس کا نیک آدمیوں سے آمنا سامنا ہوا۔ ان میں سے چونکہ کوئی اس کو کوئی کرامت نہ دکھا سکا لہذا یہ ان کو ولی ماننے پر تیار نہیں تھا۔ اس کے نزدیک ولی ہونے کی شرط ہی کوئی کرامت تھی۔ جیسا کہ اس کو بتایا گیا اولیاءاللہ دیواروں کو چلا دیتے تھے ،دریاﺅں کو روک دیتے تھے، شیروں پر سواری کرتے تھے ،ویرانوں میں پانی کے چشمے نکال دیتے تھے، پرندوں کو حالت اڑان میں مار دیتے تھے اور اندھیروں میں اچانک چراغ جلا دیتے تھے ۔جو اس کو ملے تجربے کے طور پر اس کو سر کے درد سے نجات تک نہ دلا سکے۔
اس مہم کے بعد جو کوئی اس کے سامنے کسی جگہ پر موجود کسی ولی اور اس کی کسی کرامت کا تذکرہ اس کے سامنے کرتا تو وہ اس کی بات پر یقین کرنے سے انکار کر دیا۔
بالآخر ایک دن یہ سوچ کر اس نے ان کی جستجو ہمیشہ کے لئے ترک کر دی کہ اولیاءاللہ صرف اگلے زمانوں میں تھے ۔گناہ عروج پر ہیں ۔گنہگار لوگوں میں سے کسی ولی کا پیدا ہونا مشکل ہے۔
قومی اسمبلی اور صوبائی اسبملیوں کے الیکشنوں کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔ وہ بچوں کو ان کے سکولوں اور کالجوں میں چھوڑ کر آرہا تھا۔ راستے میں اس کو ٹریفک پولیس نے روک کر کہا کہ وہ اپنی کار اس کے حوالے کر دے۔ پوچھنے پر ٹریفک پولیس نے بتایا کہ الیکشنوں کے انتظام و انصرام کے لئے ڈپٹی کمشنر صاحب کو بہت ساری گاڑیوں کی ضرورت ہے۔ سرکاری گاڑیاں اتنی نہیں کہ اس ضرورت کو پورا کر سکیں۔ چنانچہ انہوں نے حکم دیا ہے کہ جو بھی گاڑی نظر آئے اس کو قابو کر کے ان کے پاس پہنچا دی جائے۔ وہ ڈپٹی کمشنر صاحب کے اس حکم کے تحت اس گاڑی کو قابو میں لینے پر مجبور ہے۔ اس نے اس کی بہت منت سماجت کی لیکن وہ نہ مانی اور اس کی کار لے لی۔ عالم بے بسی میں اس نے ٹیکسی لی اور گھر آیا۔
سوچ سوچ کر کار کی واپسی کے لئے اس نے خود ڈپٹی کمشنر سے ملنے کی ٹھانی۔ چونکہ شام ہو چلی تھی لہذا اس نے اس کے بنگلے کا رخ کیا۔ بنگلے پر پہنچ کر اس نے ملاقات کے لئے اس کے پاس اپنے نام کی چٹ بھجوائی ۔اندر سے جواب آیا کہ مہمان آئے ہوئے ہیں ۔مہمانوں سے فارغ ہونے کے بعد وہ اس سے مل سکیں گے۔ امکان ہے کہ ایک گھنٹے کے بعد وہ ان مہمانوں سے فارغ ہو جائیں گے۔ مجیب اللہ بجائے واپس ہونے کے وہیں انتظار گاہ میں بیٹھ گیا ۔انتظار گاہ میں اس نے محسوس کیا کہ اندرگرمی زیادہ ہے جبکہ باہر موسم قدرے خوش گوار ہے ۔اس پر وہ باہر نکل آیا۔
وہ پہلی بار ادھر آیا تھا۔ اس نے ایک درخت کے نیچے کھڑے ہو کر ارد گرد کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ اس جائزے سے اس کو معلوم ہوا کہ ڈپٹی کمشنر کا بنگلہ شہر کے خوبصورت ترین مقام پر واقع ہے۔ بنگلے کے ارد گرد بہت بڑے ہرے بھرے لان ہیں۔ ان لانوں میں بڑی ترتیب سے پھولوں کی کیاریاں بنائی گئی ہیں ۔ان سے آگے شرقاً غرباً دور تک لہلہاتی فصلوں کے کھیت ہیں۔ جنوب میں سول کلب، اس کے ساتھ سپورٹس کمپلیکس اور ہر قسم کے پودوں کی محکمہ جنگلات والوں کی نرسری ہیں جبکہ شمال میں ایس۔ پی ہاﺅس، پولیس لائن اور دوسرے افسروں کے بنگلے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر کے بنگلے کے مین گیٹ پر پولیس مستعدی سے موجود ہے ۔ان سے آگے استقبالیہ دفتر ہے۔ وہاں ہمہ قسم کے ٹیلی فون اور وائرلیس سیٹ پڑے ہیں ۔باوردی ملازمین کے ساتھ ساتھ دوسرے کام کرنے والوں کی بہتات ہے۔ ڈپٹی کمشنر کے استعمال میں آنے والی دو کاریں اور دو جیپیں بنگلے کے سامنے کھڑی چمک رہی ہیں۔ ان سے کچھ فاصلے پر پولیس والوں اور ملاقاتیوں کی گاڑیاں ہیں۔ سامان خوردو نوش و تحائف اندر جا رہے ہیں اور اندر سے آنے والوں کے لئے ان کے مرتبے کے مطابق تواضع کی اشیاءآرہی ہیں۔
اس کا دل کیا کہ اس ماحول سے تسلی کے ساتھ لطف اندوز ہونے کے لئے وہ کہیں بیٹھ جائے۔
بیٹھنے کے لئے اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ بنگلے کے جانبِ شرق ایک لان کے کونے میں ایک چھوٹی سے مسجد نظر آئی ۔وہ اس مسجد کی طرف چل پڑا۔ مسجد کے پاس پہنچ کر اس کی نظر مسجد کے درواز کے بالکل سامنے پیپل کے درخت کے نیچے مطالعہ میں محو ایک آدمی پر پڑی۔ وہ اس کے پاس آگیا۔ اس کی اجازت سے وہ اس کے پاس گھاس پر بیٹھ گیا۔ دونوں کے درمیان باتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ ان باتوں کے دوران اس کو پتہ چلا کہ وہ آدمی مسجد میں اذان دینے، نماز اور بچوں کو قرآن پاک پڑھانے اور مسجد کی دیکھ بھال پر مامور ہے۔ رہائش کے لئے مسجد سے ملحق اس کو ایک کمرہ ملا ہوا ہے ۔اپنے فرائض سے فارغ ہو کر وہ کبھی اپنے کمرے میں لیٹ جاتا ہے اور کبھی لان میں پیپل کے درخت کے نیچے مطالعے میں محو ہو جاتا ہے۔ جن بچوں کو وہ قرآن پڑھاتا ہے ان کے والدین اس کو کچھ پیسے دے دیتے ہیں جن سے اس کی گزر اوقات بخوبی ہو جاتی ہے ۔اس کا کنبہ کوئی اتنا بڑا نہیں۔ یہ صرف اس کی بیوی اور ایک بیٹے پر مشتمل ہے۔ اس آدمی کا انداز زندگی، اس کو میسر دل آوایز اور پرسکون ماحول اور اس کے چہرے پر نیکی اور قناعت سے پیدا ہونے والا نور دیکھ کر اس کو لگا کہ وہ دنیا کا خوش قسمت ترین فرد ہے ۔وہ وقت کی رفتار کو بالکل بھول گیا ۔ڈپٹی کمشنر کے بنگلے سے نکلنے والی ایک گاڑی کی ہوٹر کی آواز نے اس کا دھیان ادھر کیا۔ اس نے اپنی گھڑی پر نظر ڈالی۔ گھڑی مقررہ وقت سے پندرہ منٹ اوپر دکھا رہی تھی۔ وہ تاخیر کے نتائج سے گھبرا گیا۔ وقت مقررہ گزر جانے کی وجہ سے کہیں اس کو ملاقات سے محروم نہ کر دیا جائے۔نتیجے کے طور پر وہ وہاں سے اجازت لے کر بنگلے کے گیٹ پر بہت تیزی سے پہنچا۔ اس کی خوش قسمتی کہ گیٹ پر موجود لوگوں نے ملاقات کے لئے اس کو ڈپٹی کمشنر کے ملاقات کے کمرے میں پہنچا دیا۔
ملاقات کا کمرہ خالی پڑا تھا ۔وہ چپ چاپ آہستہ سے ایک صوفے پر سمٹ کر بیٹھ گیا۔ اس کے بیٹھنے کے کوئی ایک منٹ بعد عمدہ وردی میں ملبوس صاحب کے ایک نوکر نے اطلاع دی کہ چند لمحوں بعد صاحب وہاں پہنچ جائیں گے۔ اس اطلاع پر اس کے اعصاب کچھ ڈھیلے ہوئے۔ اس نے اب ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ جس شدت سے اس کو بنگلے سے باہر کے ماحول نے متوجہ کیا اسی شدت سے اس کو اندر کے ماحول نے متوجہ کیا ۔کمرہ کیا ہے کسی بادشاہ کے محل کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ بیش بہا قالین، اعلیٰ ترین فرنیچر، دیواروں کے ساتھ آویزاں فریم شدہ خوبصورت مناظر کی تصاویر، بریف کیس، جاذب نظر سٹیشنری اور رائٹنگ پیڈ، کئی ٹیلی فون اور وائرلیس سیٹ۔
اس دوران ڈپٹی کمشنر اندر داخل ہوئے۔ ڈپٹی کمشنر کو دیکھ کر وہ حیران رہ گیا اور ڈپٹی کمشنر اس کو دیکھ کر حیرت میں ڈوب گئے۔ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا، ”وقار حسن تم؟“ اور ڈپٹی کمشنر زور سے بولے، ”ارے مجیب اللہ،“ پھر دونوں بے تکلفی سے ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے۔ وقار حسن اس کا یونیورسٹی میں کلاس فیلو اور یونیورسٹی ہوسٹل میں روم میٹ نکلا۔ بغل گیر ہونے کے بعد ڈپٹی کمشنر نے اس کو وہاں بیٹھنے نہ دیا۔ وہ اس کو اپنے ڈرائینگ روم میں لے گیا جو ملاقات والے کمرے سے سج دھج میں کئی گنا بڑھ کر تھا۔
دونوں کی ملاقات پندرہ سال بعد ہوئی تھی ۔خوب باتیں ہوئیں ،ماضی کے دوستوں کو یاد کیا گیا، زندگی کے ان مقامات پر پہنچنے کے لئے دونوں پر جو مرحلے گزرے ایک دوسرے کو بتائے گئے اور اس خوشی کا بار بار ذکر ہوا جو ان کو ایک دوسرے سے اس ملاقات پر ہوئی۔ باتوں کے دوران مشروبات، مٹھائی، بسکٹوں، پیسٹریوں، پکوڑوں، سموسوں، کبابوں، پھلوں اور چائے سے مسلسل اس کی تواضع ہوتی رہی۔ آخر میں اس نے اپنی آمد کا مقصد بتایا۔ ڈپٹی کمشنر نے فوراً کسی کو فون کیا۔ فون کرنے کے کوئی پانچ منٹ بعد اس کی کار اس کے لئے بنگلے کے دروازے پر موجود تھی۔
ڈپٹی کمشنر کی شان کی یہ جھلک وہ کئی دنوں تک اپنے ذہن پر سے نہ ہٹا سکا۔ اندر فسانہ عجائب اور باہر طلسم ہوش ربا۔ ان سب سے بڑھ کر اختیارات کا خزانہ۔
اس ملاقات کے تقریباً ایک ماہ بعد ڈپٹی کمشنر کا وہاں سے ایک اور جگہ تبادلہ ہو گیا جبکہ ایک سال بعد وہ خود اسلام آباد منتقل ہو گیا۔
کوئی پانچ سال بعد اپنی زرعی اراضی سے متعلقہ ریونیو ریکارڈ کی درستی کے لئے اس کو اپنے سابقہ شہر کے ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کی ضرورت آن پڑی ۔وہ چنانچہ اس بنگلے میں ان دنوں رہنے والے ڈپٹی کمشنر سے ملنے کے لئے روانہ ہو گیا ۔بنگلے پر پہنچ کر اس نے سب سے پہلے وہاں کی مسجد میں اذان دینے، مسجد میں نماز و قرآن پاک پڑھانے اور مسجد کی دیکھ بھال پر مامور شخص سے ملنے کا تہیہ کیا۔ سڑک کے ایک طرف اپنی کار کھڑی کر کے اور لان کو بیچ میں سے پار کر کے وہ مسجد کے دروازے پر آگیا۔ اس ماحول میں پیپل کے درخت کے نیچے بیٹھا شخص اس کو ایک بار اور حیرت کے سمندر میں لے گیا۔ کمترین قسم کے سفید رنگ کے کپڑے کا لباس پہنے اور داڑھی رکھے ہوئے یہ شخص وقار حسن تھا۔ اس کو دیکھتے ہی وہ بولا،
”وقار حسن تم؟“
”ہاں میں،“ وقار حسن نے جواب دیا۔
”تم اس حالت میں کیسے پہنچے؟“ اس نے جلدی سے دوسرا سوال کیا۔
”وہ مولوی صاحب جو یہاں ہوتے تھے ان سے میں نے اپنی جگہ تبدیل کر لی ہے،“ وقار حسن نے مسکرا کر بتایا۔
”کیسے؟“ اس نے پہلے سے زیادہ تعجب میں اس سے استفسار کیا۔
”آپ بیٹھیں تو سہی میں اندر سے آپ کے لئے چائے بنوا کر لاتا ہوں۔ چائے پینے کے دوران میں آپ کو سب کچھ بتاﺅں گا،“ یہ کہہ کر وہ اندر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد ایک ٹرے میں چائے کے دو پیالے لے آیا۔ وہیں گھاس پر ایک پیالہ اس کے سامنے اور ایک پیالہ اپنے سامنے رکھ کر آلتی پالتی مارے وہ گویا ہو“، عجیب اللہ، اس بنگلے میں رہنے کے لئے اور اس بنگلے میں رہنے والے کو ملنے والے اختیارات سے لطف اندوز ہونے کے لئے بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ میں نے اس کو سراسر گھاٹے کا سودا پایا ہے۔تمہیں پتہ نہیں کہ سربراہان قوم اس بنگلے کے مکیں کو شان و شوکت اور اختیار دے کر اس سے کیا کراتے ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ بے قصور ان کے اس مخالف کو قید کرادو، اس مخالف کو قتل کرا دو، اس مخالف کو اس کا جائز حق نہ ملنے پائے اور اس مخالف کی عزت و آبرو خاک میں ملا دی جائے ۔اس کے برعکس ان کے دوستوں کو بلا جواز سب مراعات دیتے چلے جاﺅ۔ پھر دن کا چین اور رات کی نیند حرام ہے۔ ٹیلی فون آجا رہے ہیں ،وائرلیس سیٹ الگ توجہ چاہتے ہیں، پیغام بر دوڑے دوڑے آرہے ہیں، ملاقاتیوں نے ناک میں دم کر رکھا ہے، اپنے سے بڑوں کے دورے بھگتانے ہیں، فسادات سے نپٹنا ہے، جرائم کو فرضی طور پر گھٹانا ہے، ماتحتوں کی بداعمالیوں کے غرقابے میں پڑنا ہے اور لوگوں کو لوٹنا ہے تاکہ ان سے لوٹا ہوا پیسہ بوقت ضرورت کام آئے۔ یہ ضرورت متواتر رہتی ہے ۔کتنا پر مسرت کتنا پرسکون اور کتنا برگزیدہ تھا وہ شخص جو اس بنگلے میں رہنے والے کے سامنے اس جگہ بیٹھا کرتا تھا جہاں اب ہم بیٹھے ہیں ۔یہ جگہ کسی خوش قسمت کو ملتی ہے ۔میں پس استعفےٰ دے کر یہاں آ بیٹھا ہوں۔“
”بہت خوب!“ مجیب اللہ نے نعرہ مارا۔
”وہ شخص کہاں گیا؟“ اس نے قدرے توقف کے بعد اس کو مخاطب کیا۔
”وہ اب اس بنگلے میں رہتا ہے،“ وقار حسن نے اس کا تجسس دور کیا۔
”نہیں؟“ حیرانی کے انتہائی عالم میں مجیب اللہ کے حلق سے آواز آئی۔
”ہاں،“ وقار حسن نے مسکرا کر اپنی بات کی تصدیق کی۔
”وہ کس طرح؟“ مجیب اللہ۔
”اس کا بیٹا مقابلے کے امتحان کے ذریعے ڈپٹی کمشنر بن کر اس کا مکین ہے۔ اس نے اپنے بیٹے کے ساتھ رہائش رکھی ہوئی ہے،“ وقار حسن
مجیب اللہ بے قابو ہو کر وقار حسن کے پیروں پر گر گیا کیونکہ اس نے کرامت دیکھنے کے بعد اس کے وجود میں ولی کو پا لیا تھا۔
وہ کون ہے؟
عباس خان
میں نے کئی لوگوں سے سنا کہ امپیریل ہوٹل کی مالکہ صوفیہ کلدانی بہت خوبصورت ہے۔ چنانچہ اپنے ہوٹل کے منیجر کی وفات پر جب اس نے نئے منیجر کی بھرتی لے لئے اخبار میں اشتہار کے ذریعے درخواستیں مانگیں تو صرف اس کو دیکھنے کے لئے میں نے بھی درخواست دے دی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں اس وقت روزگار کی تلاش میں تھا لیکن میرا ہوٹل کی ملازمت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں کسی بینک، کسی ہوائی کمپنی یا کسی بڑے اخبار کے ادارے میں جانے کا خواہش مند تھا۔ یہ بات مسلمہ تھی کہ انٹرویو وہ خود لے گی۔ انٹرویو کے دوران نہ صرف اس کو دیکھنے کا موقع مل جائے گا بلکہ بات چیت کا بھی۔
چونکہ میرا ارادہ ہوٹل کی ملازمت کرنے کا نہیں تھا لہذا انٹرویو کے لئے میں کوئی تیار ی کر کے نہ گیا۔ میں نے اپنا روزمرہ والا لباس شلوار قمیض پہنا۔ ایک ہوٹل کی کارکردگی اور اس کے انتظام و انصرام کی ضروریات کے بارے میں میں نے کوئی معلومات نہ لیں۔ اس طرح انٹرویو کرنے والی کی نفسیات کے متعلق بالکل پوچھ گچھ نہ کی۔ یہاں تک کہ باوجود سخت ہدایت کے میں نے اپنے ساتھ نہ تو اپنی اصل سندات لیں اور نہ ہی کاغذ و قلم۔ دیگر امیدواران خوب تیار ہو کر آئے تھے۔
امیدواروں کی فہرست میں میرا نام پندرہویں نمبر پر تھا۔ جس انداز میں انٹرویو ہو رہا تھا امکان تھا کہ میری باری اگلے روز آئے گی۔ اس امکان کے پیش نظر میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے فیصلہ کر لیا کہ اگر اس روز میرا انٹرویو نہ ہوا تو میں دوبارہ انٹرویو کے لئے نہیں آﺅں گا۔ صوفیہ کو صرف دیکھنا ہی ہے نا۔ جب وہ گھر جانے کے لئے گاری میں بیٹھنے لگے گی تو میں ہجوم میں قریب جا کر اس کو دیکھ لوں گا۔ حسن اتفاق کہ میری باری اسی روز آگئی اور میں بھرتی کر لیا گیا۔
امپیریل ہوٹل ایک فائیو سٹار ہوٹل تھا۔ میری رائے میں یہ شہر کا سب سے اچھا ہوٹل تھا ۔اس میں وہ سب خصوصیات تھیں جو ایک اچھے ہوٹل میں ہونی ضروری ہیں ۔مزید براں کھانا، کمرے، ٹیلی فون،دھوبی، حجام، جوتے پالش کرنے والے، اخبارات و رسائل، روزمرہ استعمال کی اکثر دوسری اشیائ، ٹیکسیاں اور شادیوں اور دوسرے پروگراموں کے لئے ہال یہاں سب سے سستے تھے۔ اس ہوٹل کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ ہر شب اس کے ڈائیننگ ہال میں ایک مصری لڑکا ڈانس ہوتا تھا۔ اس ڈانس کو اور ڈانس میں استعمال ہونے والے لباس کو مشرق و مغرب کا ایک دلربا امتزاج بنایا جاتا تھا۔ مصری لڑکی وہاں مجھ سے ایک سال قبل آئی تھی۔ اس سے پہلے ایک انگریز لڑکی تھی۔ جب ہوٹل کا افتتاح ہوا وہ انگریز لڑکی وہاں رکھی گئی۔ ایک مقامی فلم ایکٹر کے ساتھ اس کا معاشقہ چلا۔ معاشقے کے نتیجے میں وہ ہوٹل کی ملازمت چھوڑ کر اس فلم ایکٹر کے ساتھ چلی گئی۔ درمیان میں وقفے وقفے کے بعد دوسری ڈانسرز بھی بلائی جاتی تھیں۔
صوفیہ کلدانی سیٹھ اکبر کی بہو تھی۔ سیٹھ اکبر کے چار بیٹے تھے۔ وہ ان کے سب سے چھوٹے بیٹے نشاط احمد کی بیوی تھی۔ سیٹھ اکبر کی وفات پر ان کی جائیداد ان کے ورثاءمیں بمطابق قانون تقسیم ہوئی۔ نشاط احمد کے حصے میں ہوٹل امپیریل اور ایک کوٹھی آئی۔
نشاط احمد ایک خوبر و نوجوان تھا۔ اس کا زندگی میں ایک ہی مشغلہ تھا اور یہ مشغلہ گھوڑوں کی دوڑ تھا۔ وہ اپنا گھوڑا ریس کورس میں خود دوڑاتا تھا۔ صوفیہ نے اس کو وہاں گھوڑا دوڑاتے دیکھا ۔وہ اس کو پسند آگیا۔ یہ پسند شادی کا باعث بنی۔ اس شادی سے ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہوئی۔ ایک دن گھوڑا دوڑاتے ہوئے نشاط احمد گھوڑے سے گر کر مر گیا۔ صوفیہ نے فیصلہ کیا کہ وہ دوسری شادی اپنے خاوند سے محبت، اپنے مزاج اور بچوں کی خاطر نہیں کرے گی۔ وہ خود کو گھر، ہوٹل کی دیکھ بھال اور بچوں سے صرف وابستہ رکھے گی۔
ہوٹل میں اس کے بیٹھنے کے لئے دو فٹ اونچا لکڑی کا ایک چبوترا بنایا گیا تھا۔ چبوترے کے اوپر لکڑی کا ایک سائبان تھا۔ چبوترے کا رخ ڈائیننگ ہال اور استقبالیہ کی طرف تھا۔ اسی رخ پر اس کی کرسی اور میز رکھی گئیں۔ پشت ولی طرف چبوترے کے فرش سے لے کر سائبان تک لکڑی کی دیوار بنا دی گئی تھی۔ صوفیہ ٹھیک پانچ بجے شام گھر سے آکر اپنی نشست پر بیٹھ جاتی اور ٹھیک نو بجے واپس چلی جاتی۔
جیسا کہ میں نے پایا وہ جتنی کوبصورت تھی اتنی ہی خوب سیرت تھی۔ اس کا عالم شباب، اس کا اکیلا پن اور اس کے لاتعداد چاہنے والوں کی طرف سے ترغیبات اس کو کبھی کسی لغزش پر مجبور نہ کر سکیں۔ سوائے رشتے داروں اور ہوٹل کے ملازمین کے اس کو کوئی نہیں مل سکتا تھا اور نہ ہی وہ خود کہیں جاتی تھی سوائے رشتے داروں کے گھرں میں اور وہ بھی صرف کسی شادی یا کسی فوتیدگی کے موقع پر۔ ہوٹل میں اس کے ساتھ فلرٹ کرنا تو درکنار کسی کی کیال مجال کہ اس کے ساتھ کوئی بات کرنے کے لئے پہنچ جائے چاہے یہ بات کتنی ہی اہم کیوں نہ ہو۔ یہ منیجر کے فرائض میں شامل تھا کہ اس کی طرف بڑھنے والوں کو نہایت شائستگی سے روکے۔ کوئی ایسی بات ہے جس پر اس کی توجہ ضروری ہے تو یہ اس تک منیجر کے ذریعے پہنچائی جائے۔ اس کو ڈرانا دھمکانا ناممکنات میں سے تھا کیونکہ اس کے دو دیور فوج اور سول سروس میں بہت بڑے عہدوں پر تعینات تھے۔ وہ اس کی حفاظت کی ذمے داری مسلسل لیے ہوئے تھے۔ جہاں تک میری تحقیق کا تعلق ہے صوفیہ نے اپنے جذبات کوورزش، یوگا، بچوں کی طرف بہت زیادہ دھیا ن اور خوراک کے انتخاب سے کنٹرول کر لیا تھا۔ ہوٹل کے ملازمین کے ساتھ وہ ہمیشہ مہربانی سے پیش آتی اور مقدور بھر ان کی پریشانیاں دور کرنے کی کوشش کرتی۔ وہ بہت فیاض تھی، بہت بلند حوصلے والی تھی اور بہت زیادہ فلاحی کاموں میں مدد دینے والی تھی ۔وہ طبعاً کم گو تھی، سادہ لباس پہنتی تھی جو اکثر سفید رنگ کا ہوتا اور بیشتر وقت سوچوں میں غلطاں رہتی۔ موقع ملنے پر وہ مطالعے میں ڈوب جاتی۔ مطالعے میں اولیت فلسفے کو حاصل تھی۔
میں دن بدن ہوٹل کے ماحول اور صوفیہ کی شخصیت میں ڈوبتا چلا گیا۔ مجھے لگا کہ اس سے بڑھ کر عمدہ مقام مجھے اور کہیں نہیں مل سکتا۔ شام ہے، ہوٹل کی صاف ستھری عمارت بقعہ نور بنی ہوئی ہے، ہر طرف چل پہل ہے، ہوٹل کے اندر گملوں کے ذریعے اور ہوٹل کے باہر لانوں میں سبزہ ہے اور پھول ہیں، ہوٹل کے اندر من پسند درجہ حرارت ہے، میری پسند کی موسیقی مدھم لے میں بج رہی ہے اور ہر رنگ اور ہر طبقے کے لوگ ہیں۔ ہوٹل کا دلکش انداز اس وقت نقطہ عروج پر پہنچ جاتا ہے جب ڈائننگ ہال میں ڈانس ہو رہا ہوتاہے اور صوفیہ اپنی نشست پر موجود ہوتی ہے۔
صوفیہ کو چپ چاپ ’سفید کپڑوں میں ملبوس‘ کرسی کی پشت کے ساتھ ٹیک لگائے اور سامنے نظریں جمائے دیکھ کر مجھے لگتا یہ کوئی طلسم ہے۔ ایک دیوی آسمانوں سے زمین پر اتر آئی ہے۔ اس نے اس زمین پر محبت کی نظر دوڑائی ہے جس کے اثر سے یہ یک لخت جنت میں بد گئی ہے۔ وہ اس کے ایک سرے پر اونچی جگہ بیٹھی اس کو جنت میں بدلا دیکھ کر مسکرا رہی ہے۔ یا وہ جگہ کسی اور سیارے کی ہے جہاں کی ملکہ صوفیہ ہے۔ اس نے اپنی نیکیوں اور اپنے حسن و جمال سے اس کو اپنی تکمیل کی انتہا پر پہنچا دیا ہے۔
میرا اور صوفیہ کا تعلق محض مالک اور ملازم کا تھا۔ میں نے کبھی بھی اپنی حد سے تجاوز نہ کیا۔ اسی طرح اس نے کبھی یہ تاثر نہ دیا کہ اس کے دل میں میرے لیے کوئی نرم گوشہ ہے۔ ان باتوں کے باوجود مجھے لگتا تھا کہ مجھے کوئی متاع بے بہا مل گئی ہے۔ اس متاع کو پا کر میں بہت خوش ہوں۔ میری زندگی میں جب کوئی پریشانی آئی، جب میں معاملات دہر سے گھبرا گیا اور جب میں ذلتوں سے دوچار ہوا تو میں نے صوفیہ کا تصور کر لیا۔ اس تصور نے مجھے ہر پریشانی، ہر گھبراہٹ اور ہر ذلت پر فتح پانے کا حوصلہ دیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں اس کے اتنا زیر اثر آگیا کہ جب تک وہ وہاں رہتی میری نظریں اس کے چہرے سے نہ ہٹتی تھیں اور جب وہ چلی جاتی اور میں وہاں ہوتا میری نظریں اس کے سامنے موجود قد آدم تصویر پر رہتیں جو میں نے اصرار کر کے وہاں آویزاں کرائی تھی۔ میں نے اس کو محسوس نہیں ہونے دیا تھا کہ میں اس کی تصویر وہاں چاہتا ہوں۔ میں نے یہ کہہ کر اس کی تصویر وہاں آویزاں کرائی تھی کہ ہوٹل کی مالکن کی تصویر کا وہاں ہونا ضروری ہے۔ تصویر سے لوگوں کو اس ادارے کی تکمیل کا احساس ہوگا۔ علاوہ ازیںیہ ایک یادگار کی ضرورت کو پورا کرے گی۔
میں اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ دنیا حقیقی نہیں ہے۔ ہم سفر کی صورت میں اس میں سے گزر رہے ہیں۔ یہ سفر نہایت ہی کٹھن ہے۔ ان کھٹن مقامات میں سے ایک عورت ہے۔ آدمی کو اس سے ہوشیار رہنا چاہیے ورنہ وہ منزل مقصود تک نہیں پہنچنے پائے گا۔ میں اس سچائی کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔ غموں اور پریشانیوں سے گھبرا کر الٹا میں نے اس کے دامن حسن کے نیچے پناہ لی۔
میں نے بہت جلد معلوم کر لیا کہ میری طرح ایک اور انسان صوفیہ کی شخصیت میں غرق ہے۔ یہ انسان جمال احمد ہے جو شہر کے واحد تھیٹر ہاﺅس کا مالک ہے۔ وہ صوفیہ کے ہوٹل میں پہنچنے سے تقریباً پانچ منٹ پہلے پہنچ جاتا اور ڈائننگ ہال میں صوفیہ کی دائیں جانب ذرا نزدیک پڑی میز کے سامنے بیٹھ جاتا اور چائے پیتا رہتا۔ جب صوفیہ جانے لگتی تو وہ اٹھ کر چلا جاتا۔ وہ سیاہ چشمہ لگائے رکھتا تھا۔ چشمے کے پیچھے سے وہ صوفیہ کو مسلسل دیکھتا رہتا تھا۔ وہاں اس کے آنے کا مقصد صرف صوفیہ کو مسلسل دیکھتے رہنا تھا۔ اس نے کبھی صوفیہ کے قریب جانے یا اس سے بات کرنے کی خواہش نہ کی۔ صوفیہ کو معلوم نہیں معلوم تھا کہ نہیں کہ کوئی اس کو اس طرح دیکھتا ہے۔
تقریباً دو سال بعد موسم بہار کی ایک خوشگوار شام کو میں نے صوفیہ کو بہت زیادہ خوش پایا ۔اس کی خوشی کی یہ وجہ معلوم ہوئی کہ اس دن ایک اخباری اطلاع کے مطابق اس کے بڑے بیٹے نے وظیفے کا امتحان میں سارے بورڈ میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ وہ جب ہوٹل میں داخل ہوئی بے ساختہ مسکرا رہی تھی۔ اس کی خوشی میں موسم بہار، بہار میں کھلے پھولوں کی خوشبوئیں اور ہال میں بجنے والی موسیقی کی لے شامل ہو گئی۔ اس شام ہوٹل کی ڈانسر اچانک بیمار پڑ گئی۔ اس سمے میں اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکتے ہوئے وہ خود ہال میں ڈانس کرنے لگ گئی۔ دوران ڈانس اس نے ہر میز کا پھیرا لگایا اور میزوں کے ارد گرد بیٹھے لوگوں کو نظروں سے، جسم کے جھٹکوں سے یا چھو کر چھیڑا۔ اس کے ساتھ سارا ہال وجد میں آگیا۔ وجد میں نہ آیا تو جمال احمد نہ آیا جبکہ میرا خیال تھا کہ صوفیہ کو ڈانس کرتے دیکھ کر وہ بے قابو ہو چکا ہوگا اور جب وہ اس کی میز پر پہنچ کر اس کو اپنی طرف مخاطب کرے گی وہ اس سے چمٹ جائے گا۔ وہ الٹا ہال سے باہر نکل گیا۔
جمال احمد اس شام کے بعد کبھی وہاں نہ آیا۔ میں نے کئی روز اس کا انتظار کیا ۔وہ رکنے والا نہیں تھا ۔وہ کیوں رک گیا ہے؟ میرا ماتھا ٹھنکا۔ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ صوفیہ جس کو میں جو کچھ سمجھ رہا ہوں اس سے کیا مختلف ہے؟ اس کا کوئی تعلق جمال احمد سے ضرور ہے۔ اس شام دونوں میں ان بن ہو گئی ہے ۔میرا تجسس روز بروز بڑھتا گیا۔ مجھے جب باوجود کوشش کے ادھر ادھر سے کوئی سراغ نہ ملا تو میں نے فریقین سے بلا واسطہ معلومات حاصل کرنے کا تہیہ کر لیا۔
کئی بار ارادہ کیا لیکن میں صوفیہ سے پوچھ نہ سکا ۔میں اگلے قدم کے طور پر جمال احمد کے گھر جا پہنچا اور صاف صاف لفظوں میں اس سے پوچھا، ”آپ ہمارے ہوٹل میںکیوں نہیں آ رہے؟“
جیسے میں نے صاف صاف لفظوں میں سوال کیا اس نے ویسے صاف صاف لفظوں میں جواب دیا، ”آپ کے ہوٹل کی مالکہ سے میرا قطعاً کوئی تعلق نہ تھا اور نہ ہے۔ میں نے کبھی اس سے گفتگو تک نہیں کی۔ میں اس کو بس فطرت کا ایک ایسا شاہکار سمجھتا تھا جس کی تاب جبیں انسانی قافلے کی رہبر ہے اور جس کے حسن و جمال کے روبرو پہنچ کر انسان ہر غم کو بھول جاتا ہے جبکہ وہ ایک عورت نکلی۔ میں اس کے حضور پہنچ کر غموں، بے چینیوں، اداسیوں اور اندیشوں سے فرار حاصل کر لیا کرتا تھا۔ جب سے انکشاف ہوا ہے کہ وہ ایک عورت ہے میں اس سے دل برداشتہ ہو گیا۔ لہذا میں وہاں جانا پسند نہیں کرتا۔ زندگی میں سودو زیاں سے بالاتر ہونے کی میری طرف سے یہ آخری کوشش تھی۔ میں اس کوشش کی ناکامی پر بہت بڑے روحانی صدمے سے دوچار ہوں۔“
”عورت تو وہ ہے۔ کیا اس عورت کے علاوہ کوئی اور عورت ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس دوسری قسم کی عورت سے آپ کی کیا مراد ہے؟“ میں نے وضاحت چاہی۔
”عورت تو وہ تھی، میں لیکن سمجھتا تھا کہ اپنی معراج پر پہنچ کر وہ ایک دیوی میں بدل گئی ہے۔ افسوس کہ اندر سے وہ بھی وہی عورت نکلی ہے، وہی عورت سے مراد وہ جو ہماری روز مرہ زندگی میں موجود ہے،“ اس نے وضاحت کی۔
”آپ نے کیسے پایا کہ وہ صرف عورت ہی ہے؟“ میں نے صورت حال سے مکمل آگاہی حاصل کرنے کے لئے پوچھا۔
”اس کے ناچنے سے، ناچنے کے دوران اس کے کولہے مٹکانے سے اور لوگوں کو چھیڑنے سے،“ وہ مغموم لہجے میں بولا۔
یہ اطلاع پا کر مجھ سے مزید کوئی سوال نہ بن پڑا۔ میں اس سے اجازت لے کر باہر نکل آیا۔ وہ ٹھیک کہتا ہے۔ وہ جو سوچتا ہے وہی میری سوچ ہے۔ وہ تو محض ایک عورت ہے جبکہ میں بھی اپنے خیالوں میں اس کو کچھ سے کچھ سمجھتا ہوں۔ میں بھی جمال احمد کی طرح بے چین ہو گیا۔ اداس ہو کر میں نے ایک ہفتے کی چھٹی لی اور تقریباً سارا ہفتہ گھر میں پڑا رہا۔
چھٹی ختم ہونے کے بعد جب میں ہوٹل میں ڈیوٹی پر گیا تو ہوٹل کے دروازے پر میری صوفیہ سے مڈبھیڑ ہو گئی۔ میں نے اس کو عورت سمجھتے ہوئے رسماً مسکرا کر اس کو مخاطب کیا ،”یہ بات بہت عمدہ ہے کہ بیٹے کی کامیابی کے بعد آپ خوش خوش لگتی ہیں۔“
اس نے میری بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے بھی مسکرا کر ترچھی نگاہوں سے بس مجھے دیکھا۔ میں مزید کچھ کہے بغیر آگے نکل گیا۔ اس کی ترچھی نگاہوں اور مسکراہٹ سے میرا بوجھ ہلکا ہو چکا تھا۔ اگر وہ ایک عورت ہے تو میں ایک مرد ہوں۔
افسانچے
عباس خان
عشق
”شبانہ کو امجد نے طلاق دے دی ہے ۔“
” واقعی؟“
”بالکل درست ہے ۔وہ طلاق دینا چاہتا تھا اور وہ طلاق لینا چاہتی تھی۔“
”و ہ کیوں؟“
”کیونکہ دونوں کو ایک دوسرے سے عشق تھا۔“
خدا کے نزدیک
”طاہر کہاں چلا گیا؟“
” اُس کو اللہ تعالیٰ نے بُلا لیا ہے۔“
”اوہ! وہ ایک اچھا انسان تھا۔ یہ خبر سُن کر بہت دُکھ ہوا ہے۔ اُس کی مغفرت کی دُعا کرتا ہوں۔“
”وہ مرا تو نہیں۔“
”آپ ہی نے تو کہا ہے کہ اُسے اللہ تعالیٰ نے بُلا لیا ہے۔“
”جناب وہ دیہات میں رہنے چلا گیا ہے۔“
زندگی کا پیمانہ
”آپ نے آج تک اُس کو نہیں دیکھا، آپ کو پھر یہ کیسے معلوم ہوا کہ وہ قبل از وقت بُوڑھی ہو گئی ہے؟“
”اُس کی ڈریسنگ ٹیبل دیکھ کر ۔ ڈریسنگ ٹیبل پر پہلے آرائش و زیبائش کی اشیاءپڑی ہوتی تھیں جبکہ اب ادویات ۔“
بلند نصب العین
” ماشاءاللہ ‘ میری اولاد کانصب العین بہت بلند ہے۔“
” وہ کیسے ؟“
”میری اولاد کہتی ہے کہ وہ بہت بلند شاپنگ پلازا بنائے گی۔“
اندر سے
” کیا دیکھ رہے ہو؟“
” وہ سامنے والا پھول دیکھ رہا ہوں ۔ کتنا خوبصورت ہے ۔ میں اس کے سحر میں گرفتار ہو کر رہ گیا ہوں۔“
© © ” اس میں اور دوسروں میں کوئی فرق نہیں ۔ اس کے اندر بھی وہی زمینی کثافتیں دوڑ رہی ہیں جو دوسروں میں۔ فرق ہے تو صرف یہ کہ اس کو کچھ زیادہ کھا د دی گئی ہے لہذا اس میں زیادہ تراوٹ آ گئی ہے۔“
” کچھ بھی ہو مجھے یہ بہت پسند ہے ۔ پتہ نہیں اس کا کیا نام ہے؟“
” اس کا نام خوبصورت عورت ہے۔“
تین ت
” وہ کنوئیں کا مینڈک ہے۔“
” وہ کیسے؟“
” کیونکہ وہ ایک ملازم ہے۔“
” کیا ملازم آدمی کنوئیں کا مینڈک ہوتا ہے ؟“
” جی ہاں“
” وہ کس کنوئیں کا مینڈک ہوتا ہے؟“
اس کا کنواںتین ت_____ترقی، تبادلہ، تنخواہ______ ہیں۔“
لیڈر
” آپ کے ملک کا لیڈر کون ہے؟“
” عوام“
” یہ جو جمیل احمد ہے؟“
” یہ تو ہمارا وزیراعظم ہے۔“
فرق
” دن اور رات میں کوئی فرق نہیں تھا۔“
” کہاں“
© ©” بڑے شہروں میں ۔“
” وہاں تو اب بھی کوئی فرق نہیں۔“
” مجھے اب محسوس ہوتا ہے۔“
” وہ کیسے ؟“
” میں بوڑھا جو ہو گیا ہوں۔“
ترقی کا راز
” جاپان کی اقتصادی ترقی قابل رشک ہے۔“
”آپ بالکل ٹھیک کہ رہے ہیں۔“
” پتہ نہیں اس ترقی کا کیاراز ہے۔“
” جاپانی کرکٹ نہیں کھیلتے۔“
زوال کا عروج
”مجھے بے حد افسوس ہے کہ آفتاب کی شادی شائستہ سے نہ ہو سکی حالانکہ وہ ایک دوسرے کو چاہتے تھے۔ آفتاب بلکہ اس کی محبت میں دیوانہ ہو گیا تھا۔ وہ اپنی ساری جائیداد اس کے نام کرانے کے لئے تیار تھا ۔نیز اس نے اپنی شخصیت کو اہم بنانے کے لئے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ۔جب ان امور نے شائستہ کے والدین اور اس کے دوسرے رشتے داروں کو متاثر نہ کیا تو اس نے مقابلے کا امتحان پاس کیا ور ایک افسر بن گیا ۔اُدھر سے جواب پھر بھی نفی میں تھا۔ شائستہ کے والدین اور اُس کے دوسرے رشتے داروں کا کہنا تھا کہ لڑکا کمترین ذات سے ہے۔ دوسرے ہر جگہ شائستہ کا ذکر کر کے اُس نے انہیں بد نام کیا ہے‘۔‘
”آپ کو پتہ نہیں، آفتاب کی شادی شائستہ سے اب ہو گئی ہے ۔“
”کیا کہا؟ یہ شادی کیسے ہوئی ؟“
”آفتاب نے رہائش جو امریکہ میں اختیار کر لی تھی۔“
ادراک
”کاش!“
”کیا کوئی حسرت باقی ہے؟“
”ہاں“
”کونسی ؟“
”کاش میں ساٹھ سال کی عمر میں پید اہوا ہوتا۔“
خودکی جستجو
” وہ آج کل نظر نہیں آتا، کہاں گیا ہوا ہے؟“
”سفر پر نکل گیا ہے۔“
”یہ سفر کہاں کا ہے؟“
”اپنے اندر کی دُنیا کا۔“
لباس
”یہ لوگ مُڑمُڑ کر کیا دیکھ رہے ہیں؟“
”ایک لڑکی کو۔“
”کیا وہ بہت خوبصورت ہے؟“
” نہیں۔ اُس نے لباس تو پہن رکھا ہے لیکن بے لباس ہے۔“
حقیقت
”کیا لکھ رہے ہو؟“
”حضرت دیال سنگھ پر مضمون لکھ رہا ہوں۔“
”ہر وقت اُلٹی باتیں سوچتے رہتے ہو۔ یہ دیال سنگھ کب سے حضرت بنا ہے؟“
” اُس دن سے جس دن اُس نے لاہور میں لڑکوں کے کالج کا سنگِ بنیاد رکھا۔“
گفتگو
”وہ گفتگو کے بلند ترین مقام پر پہنچ چکا ہے۔“
”وہ تو کسی سے نہیں ملتا۔ یوں گفتگو کی نوبت ہی نہیں آتی ۔ آپ کہتے ہیں کہ وہ گفتگو کے بلند ترین مقام پر ہے ۔ یہ کونسا مقام ہے؟“
”خاموشی“
RAM LALL
' Shanti Niketan'
' Shanti Niketan'
D-2290, Indira Nagar
Lucknow-226016
Date: 20-08-1987
ڈئیر عباس خان صاحب! آداب
آپ کی کتاب کے دو حصے پڑھ چکا ہوں۔ خاک کا ڈھیر اور زخم گواہ ہیں ۔پہلے حصے میں وصیت اور خاک کا ڈھیر اعلےٰ درجے کی کہانیاں ہیں ۔ ماں اور الزبتھ چہارم اچھی ہیں۔ تلافی بس گوارا ہے۔ازل سے اب تک اور حبسِ دوام کو اس کتاب میں شامل نہ کرتے تو ا چھا تھا۔
”زخم گواہ ہیں“ اعلیٰ درجے کا ناول ہے ۔ اس پر آپ نے اپنے تجربے اور مشاہدے کی بناءپر جو محنت کی ہے قابل داد ہے۔ کردار نگانی، جزیات نگاری ، جگہ جگہ چھوٹی چھوٹی کہانیوں ، کہاوتوں ، لطیفوں اور تاریخی حوالوں نے مل کر اسے ایک ایسی تخلیق بنادیا ہے جس پر اُردو ادب کو فخر کرنا چاہیے۔ نچلے اور اوپر کے طبقے کی اتنی سچی اور کھری تصویر ادھر کئی برسوں سے دیکھنے میں نہیں آئی تھی ۔ وہ کمی آپ نے پوری کر دکھائی۔ بخت بھری، مجید اور گل میر کے علاوہ ملک عبدالعلی ایڈووکیٹ کے کردار ایسی حقیقت بینی سے پیش کئے گئے ہیں کہ اردو نقادوں کو (اگروہ دیانت داری سے کام لیں تو!)ان پر بڑی تفصیل سے لکھتے رہنا چاہیے۔
آپ کو ”زخم گواہ ہیں“ جیسی تخلیق پیش کرنے کے لئے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
آپ کا رام لعل
امید ہے آپ بخیر ہونگے اور میرا گذشتہ خط آپ کو مل چکا ہو گا۔
پس نوشت۔ آپ کی کتاب کا تیسرا حصہ بھی پڑھ چکا ہوں۔ میرے خیال میں آپ کے ناول ”زخم گواہ ہیں“ کا کوئی جواب نہیں ۔HATS OFF TO YOU!اگر اس ناول کا علیحدہ نسخہ بھجوا سکیں تو میں اسے یہاں سے شائع کرنے کے لئے کسی ناشر سے بات کر سکتا ہوں۔
ر۔ل۔ ۲ ستمبر
RAM LALL
' Shanti Niketan'
' Shanti Niketan'
D-2290, Indira Nagar
Lucknow-226016
Date: 01-11-1987
ڈئیر عباس خان صاحب! آداب
ادھر ایک نئی ذمہ داری الفاظ(دو ماہی) کی ادارت کی قبول کر لی ہے۔ یہ سوچ کر کہ ادب اور ادیب دونوں کا کچھ بھلا کر سکوں گا۔ اگرچہ اپنی بھلائی برائی کے لئے خود لکھنے والا زیادہ ذمہ دار ہوتا ہے۔ ایڈیٹر تو محض ایک وسیلہ ہوتا ہے۔ اس جریدے کے لئے آپ کا نیا اور شاہکار افسانہ چاہیے ۔کب لکھیں، جلد لکھیں۔۔۔۔یہ فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں۔ میری خواہش تو یہی ہے کہ فوراً لکھیں۔آپ کے ناول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔زخم گواہ ہیں پر ڈاکٹر صبیحہ انور سے درخواست کر رہا ہوں کہ ایک بھر پور مضمون یا تبصرہ لکھ کر بھجوا دیں جسے الفاظ میں شامل کر لوں ۔امید ہے وہ مایوس نہیں کریں گی۔ ان کا پتہ نیچے لکھ رہا ہوں اگر آپ بھی ان کو خط لکھنا چاہیں تو لکھ سکتے ہیں ۔
نیک خواہشات کے ساتھ آپ کا رام لعل
Labels: Abbas Khan, Books, Fiction, Literature, Urdu
posted by S A J Shirazi @ 10:40 AM,
0 Comments: