اردو کے ضرب المثل اشعار۔ایک اہم کتاب ، ایک اہم کارنامہ
Monday, December 19, 2011
راشد اشرف
اردو کے ضرب المثل اشعار۔ایک اہم کتاب ، ایک اہم کارنامہ
نوے برس کے محمد شمس الحق صاحب کو خدا سلامت رکھے کہ باجود اپنی پیرانہ سالی ، زبان زد
عام ہوئے اشعارکی کھوج میں شہر کراچی میں در در بھٹکتے ہیں۔ یہ دو چار برس کی بات نہیں ،اس آشفتہ سری میں وہ پورے ساٹھ برس بتا چکے ہیں۔ آپ سے پہلی ملاقات جناب سید معراج جامی کے گھر اس وقت ہوئی جب ایک روز اتوار کی صبح وہ ہاتھ میں تھیلا لیے آن پہنچے۔ تھیلے سے کتابیں برآمد ہوئیں جنہیں جامی صاحب کو سونپ، ان کے کتب خانے سے کتابوں کی اگلی کھیپ کو کھوجنے کی فکر میں لگ گئے۔ اس سے قبل ایک مرتبہ ان سے فون پر اس وقت بات ہوچکی تھی جب راقم کو ایک شعر کے خالق کی تلاش تھی، شعر یہ تھا
بہت لطیف اشارے تھے چشم ساقی کے نہ میں ہوا کبھی بے خود، نہ ہوشیار ہوا
شمس الحق صاحب سے معلوم ہوا کہ یہ شعر اصغر گونڈوی کا ہے!
اتوار کی صبح وہ باقاعدگی سے جامی صاحب کے گھر تشریف لاتے ہیں، کتابوں سے اپنے مطلب کے اشعار نکالتے ہیں ۔ کراچی کے تمام اہم کتب خانوں سے استفادہ حاصل کرتے کرتے جناب محمد شمس الحق نے 2003میں ’اردو کے ضرب المثل اشعار ۔تحقیق کی روشنی میں ‘کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کی، کتاب ادارہ یادگار غالب سے شائع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے نایاب بھی ہوگئی۔
2011
میں اس کے حقوق اشاعت لاہور کے ناشر فکشن ہاؤس (رابطہ نمبر:042-37249218)نے حاصل کیے اور دوسرے ایڈیشن کی چند ہی مہینوں کے اندر فروخت کے بعد حال ہی میں اس کا تیسرا ایڈیشن شائع کیا۔ 438 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 560 مقرر کی گئی ہے۔اس سے قبل جناب شمس الحق ’گل ہائے رنگ رنگ ‘کے عنوان سے تین جلدوں پر مبنی کتاب مرتب کرچکے ہیں، ان تینوں جلدوں میں تقریبا پندرہ ہزار اشعار مختلف عنوانات کے تحت درج ہیں۔
’اردو کے ضرب المثل اشعار ‘ میں معروف شعرا ء کرام کے 798 اشعار جمع کیے گئے ہیں جبکہ اسناد و حواشی، شعراء کامختصر تعارف، فہرست شعراء ، فہرست اشعار اور اشاریہ کے عنوانات سے مختلف ابواب بھی شامل ہیں۔ کتاب کی ترتیب و تہذیب، جناب رفیق احمد نقش کے ہاتھوں انجام پائی ہے۔ شمس الحق کے مطابق ’’اردوکے وہی اشعار ضرب المثل بن گئے جن کا طرز بیاں عام فہم، سادہ اور دل نشیں ہو، جو پڑھنے والے یا سننے والے کے حافظے پر فورا نقش ہوجائے اور جو زندگی کے مختلف حقائق اور مسائل کی آسان لفظوں میں ترجمانی کرے۔
‘‘
کتاب کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں بعض شعراء کے ایسے اشعاربھی شامل کیے گئے ہیں جن سے شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والاہر خاص و عام واقف ہے لیکن شاعر کے نام سے واقفیت بالکل نہیں ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں
بھانپ ہی لیں گے اشارہ سر محفل جو کیا
تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں (لالہ مادھو رام جوہر فرخ آبادی)
------
کب ہے عریانی سے بہتر کوئی دنیا میں لباس
یہ وہ جامہ ہے کہ جس کا نہیں سیدھا الٹا (صاحب مرزا شناور)
------
پیری میں ولولے وہ کہاں ہیں شباب کے
اک دھوپ تھی کہ گئی ساتھ آفتاب کے (خوش وقت علی خورشید)
------
صد سالہ دور چرخ تھا ساغر کا ایک دور
نکلے جو مے کدے سے تو دنیا بدل گئی
ساقی ادھر اٹھا تھا، ادھر ہاتھ اٹھ گئے
بوتل سے کاگ اڑا تھا کہ رندوں میں چل گئی (گستاخ رام پوری)
مذکورہ بالا تمام مثالیں ڈاکٹر جمیل جالبی کے اس قول کی صداقت پر پورا اترتی ہیں جس میں وہ بیان کرتے ہیں
:
’’ شاعری میں وہی اشعار ضرب المثل بن سکتے ہیں جن میں انسانی توجہ کو اپنی جانب مبذول کرانے کی یہ صلاحیت پوشیدہ ہو ، جن میں خیال کچھ ایسا اور کچھ اس طورپر ایسے انداز میں پیش کیا جائے کہ سب یہ کہہ اٹھیں کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔
کتاب میں بعض اشعار کے ایسے مصرعے بھی شامل کیے گئے ہیں جن کے پہلے یا دوسرے مصرعے کا باوجود کوشش ، علم نہیں ہوسکا ہے، کتاب میں درج ایسے تما م مصرعے پیش خدمت ہیں کہ زیر نظر مضمون پڑھنے والے اگر ان سے واقف ہوں تو مرتب سے رابطہ (021-34618521 ۔ کتاب میں درج ہے) کرکے مستند حوالے کے سا تھ انہیں اس بارے میں آگاہ کرسکتے ہیں
آثار کہہ رہے ہیں کہ عمارت عظیم تھی
------
میرا وقت آیا تو چلمن ڈال دی
------
وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
------
ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے
------
باغ باں بھی خوش رہے، راضی رہے صیاد بھی
------
وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا
------
ایک ڈھونڈو، ہزار ملتے ہیں
------
اگر اب بھی نہیں سمجھے تو پھر تم سے خدا سمجھے
------
پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی
------
ہم کو دعائیں دو، تمہیں قاتل بنا دیا
------
آبرو چاہے تو دریا سے کنواں دور رہے
۔ ۔ ۔
کتاب کو مرتب کرتے وقت جناب شمس الحق کا خیال تھا کہ صرف ان اشعار کے ماخذ کی نشان دہی
کی جائے جن کے متعلق یہ علم ہو کہ وقت گزرنے کے ساتھ ان میں تصرف پیداہوگیا ہے، یا وہ اشعار اپنے اصلی خالق کے بجائے کسی دوسرے شاعرکے نام سے منسوب ہوگئے ہیں۔ اس مجموعے کے دوران ترتیب جناب شمس الحق کے سامنے ایسے اشعار بھی آئے جن سے متعلق ان کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ ان میں بھی تصرف ہوسکتا ہے۔ چند مثالیں پیش خدمت ہیں
اورکوئی طلب ابنائے زمانہ سے نہیں
مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں کرتے (آتش)
آتش کے مذکورہ بالا شعر کا مصرع ثانی اس طرح مشہور ہے
:
مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا
مصحفی کا یہ شعر ملاحظہ ہو
:
بلبل نے آشیانہ چمن سے اٹھا لیا
پھر اس چمن میں بوم بسے یا ہما بسے
یہ شعر اس طرح زباں زد عام ہے
بلبل نے آشیانہ جب اپنا اٹھا لیا
اس کی بلا سے بوم بسے یا ہما رہے
۔ ۔ ۔
جناب محمد شمس الحق نے کتاب میں کئی اشعار کی شان نزول کا پس منظر بھی شامل کیا گیا ہے۔ میر تقی میر کے متعلق آب حیات سے یہ واقعہ نقل کیا ہے
:
’’لکھنؤ میں پہنچ کر ، جیسا کہ مسافروںکا دستور ہے، ایک سرائے میں اترے۔معلوم ہوا کہ آج یہاں ایک جگہ مشاعرہ ہے، رہ نہ سکے۔ اسی وقت غزل لکھی اور مشاعرے میں جا شامل ہوئے۔ جب داخل محفل ہوئے تو وہ شہر لکھنؤ، نئے انداز، نئی تراشیں، بانکے ٹیڑھے جوان جمع! انہیں دیکھ کر سب ہنسنے لگے۔میر صاحب بے چارے غریب الوطن ، زمانے کے ہاتھ سے پہلے ہی دل شکستہ تھے، اور بھی تنگ دل ہوئے اور ایک طرف بیٹھ گئے۔ شمع جب ان کے سامنے آئی تو پھر سب کی نظر پڑی اور بعض اشخاص نے پوچھا کہ حضور کا وطن کہاں ہے ؟ میر صاحب نے یہ قطعہ فی البدیہہ کہہ کر غزل طرحی میں داخل کیا
:
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے، ہنس ہنس پکار کے
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کردیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
سب کو معلوم ہوا، بہت معذرت کی
‘‘
کتاب میں وہ اشعار بھی شامل کیے گئے ہیں جن کے خالقوں کے نام باوجود کوشش بسیار، معلوم نہ ہوسکے، ایسی چند مثالیں ملاحظہ کیجیے
ایسی ضد کا کیا ٹھکانہ، اپنا مذہب چھوڑ کر
میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہوگیا
------
بے کار مباش کچھ کیا کر
خون دل عاشقاں پیا کر
از رشتہ زلف خویش ہر دم
چاک دل عاشقاں سیا کر
------
خط کا مضموں بھانپ لیتے ہیں لفافہ دیکھ کر
آدمی پہچان لیتے ہیں قیافہ دیکھ کر
------
مانیں، نہ مانیں، آپ کو یہ اختیار ہے
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
------
اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے
جس نے ڈالی، بری نظر ڈالی
------
جان بچی سو لاکھوں پائے
خیر سے بدھو گھر کو آئے
------
ازل سے حسن پر ستی لکھی ہے قسمت میں
مرا مزاج لڑکپن سے عاشقانہ ہے
------
نور حق، شمع الہی کو بجھا سکتا ہے کون
جس کا حامی خدا ہو، اس کو مٹا سکتا ہے کون
------
پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
جو بات کی، خدا کی قسم، لاجواب کی
۔ ۔ ۔
’اردو کے ضرب المثل اشعار ۔تحقیق کی روشنی میں ‘ میں شامل تمام اشعار بڑی چھان پھٹک کے بعد اور شعراء کے کلیات، دواوین، تذکروں تاریخ ادب کی مستند کتابوں اور تحقیقی مضامین سے لیے گئے ہیں۔ مرتب کی جانب سے حتی الامکان کوشش کی گئی ہے کہ دور قدیم سے دور جدید تک کے تمام ضرب المثل اشعار کتاب میں شامل ہوجائیں۔ کتاب میں ’ضمیمہ‘ کے عنوان سے باب شامل کیا گیا ہے جس میں اردوکے وہ اشعار درج کیے گئے ہیں جو بقول مرتب، فی الحال زبان زد عام نہیں ہیں مگر ان میں ایسا ہونے کی صلاحیت موجود ہے۔مذکورہ باب کتاب کے پہلے ایڈیشن (2003)میں شامل نہ ہوسکا تھا اوردلچسپ بات یہ ہے کہ ایسا مشفق خواجہ مرحوم کی ایما پر ہوا تھا ، 2011 میں کتاب کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت میں اس باب کو شامل کر کے شمس الحق صاحب نے اپنی دیرینہ خواہش کی تکمیل کرلی۔ مشفق خواجہ نے اسے اصل مسودے سے کیوں حذف کیا، کتاب میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ضمیمہ سے چند اشعار ملاحظہ ہوں
:
اٹھو، وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو، زمانہ چال قیامت کی چل گیا (جسٹس ہمایوں)
-----
اپنے قول وفاکو بھول گئے
تم توبالکل خدا کو بھول گئے (مضطر خیر آبادی۔والد:جاں نثار اختر)
------
راہ میں ان سے ملاقات ہوئی
جس سے ڈرتے تھے، وہی بات ہوئی (مصطفی ندیم۔ترکی سے تعلق رکھنے والے )
جناب محمد شمس الحق کہتے ہیں کہ جب وہ کوئی غیر معمولی شعر سنتے ہیں تو مہینوں اس سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔ خدا کرے کہ ان پر لطف و کرم کی یہ کیفیت برقرار رہے اور اردو کے ضرب المثل اشعار میں یونہی اضافہ ہوتا رہے۔
تعارف ۔ راشد اشرف
منکہ ایک کیمیکل انجینئر۔ عمر پینتیس برس۔ بچپن میں یاد ہے کہ شروعات فیروز سنز کی کتابوں سے ہوئی اور پھر رفتہ رفتہ جناب اے حمید کی موت کا تعاقب پر سلسلہ کچھ تھما ۔۔۔ لیکن جلد ہی ابن صفی کو جا پکڑا ۔ تعلیم ساتھ ساتھ چلتی رہی اور کتابیں اس کے ساتھ ۔ حکیم سعید کے نونہال میں پہلا مضمون نویں جماعت میں لکھا۔ لیکن باضابطہ سلسلہ جب شروع ہوا جب ۱۹۹۵ میں کالج کے زمانے میں ابن صفی پر پہلا مضمون سپرد قلم کیا جسے جناب مشتاق احمد قریشی نے نئے افق میں اہتمام کے ساتھ شائع کیا۔ سکونت اس وقت حیدرآباد سندھ میں تھی ، شہر چھوڑا اور ۲۰۰۷ میں کراچی کا رخ کیا ۔ یہ ہجرت اپنے خوابیدہ شوق پورا کرنے میں خوب بارآور ثابت ہوئی اور ۲۰۰۹ میں دفتر کے ایک دوست نے جو جناب ابن صفی کے عزیزوں میں سے ہیں، فرزند ابن صفی، احمد صفی سے جاملوایا۔جولائی ۲۰۰۹ ہی میں ایک دیرنیہ خواب کی تکمیل اس وقت ہوئی جب احقر نے ابن صفی پر اپنی غیر تجارتی ویب سائٹ وادی اردو ڈاٹ کام شروع کی۔ ڈاکٹر احمد صفی ہمارے لیے رفتہ رفتہ احمد بھائی ہوئے۔ اپنے محبوب مصنف ابن صفی کی زندگی کے کئی پہلو آشکار ہوئے، ایک کے بعد ایک موضوعات پر تحقیق کا سلسلہ جاری رہا۔ ویب سائٹ وادی اردو دیکھ کر پاکستان کے معروف ٹی وہ چینل جیو ٹی وی نے ۲۰۱۰ میں رابطہ کیا کہ ابن صفی پر پروگرام بنانا چاہتے ہیں، قریب پانچ ماہ تک دن رات ایک کیے لیکن ۲۴ جولائی ۲۰۱۰ کو جب پروگرام نشر ہوا تو تمام محنت وصول ہوئی۔ دنیا بھر سے وادی اردو پر مذکورہ پروگرام اور ویب سائٹ سے متعلق تہنیتی پیغامات آئے۔
مذکورہ پروگرام اس لنک پر دیکھا جاسکتا ہے:
posted by S A J Shirazi @ 4:55 PM,
2 Comments:
- At 10:36:00 PM, Jalal HB said...
-
An artful collection - thank you for sharing, SAJS
- At 10:27:00 AM, Rashid said...
-
بہت نوازش حضور